اپنا خنجر اپنا سینہ طلعت حسین روزنامہ ایکسپریس منگل 12 نومبر 2013


جب مسائل بے شمار ہوں تو کسی ایک پر توجہ دینا لاحاصل کوشش محسوس ہوتی ہے۔ تنازعے اور اندرونی خلفشار کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں خارجہ پالیسی کے امور پر توجہ اور بھی فضول نظر آتی ہے۔ مگر بغور دیکھیں تو ملک میں پھیلی ہوئی بے چینی کی جڑیں خارجہ امور کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ افغانستان اور شمال مغربی سرحد پر بگڑتے ہوئے حالات اِن امور میں اہم ترین ہیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں یہ سننا بھلا محسوس نہ ہو مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت پاکستان کی افغانستان اور فاٹا سے متعلق پالیسی بدترین انتشار اور ابہام کا شکار ہو چکی ہے۔ چند ماہ پہلے تک ہمیں یہ محاذ اپنے قابو میں نظر آ رہا تھا۔ ہماری پالیسی کے تین بڑے ستون (یا مفروضے) مستحکم کھڑے تھے۔
پہلا یہ کہ امریکی افغانستان سے نکلتے وقت ہمارے مفادات کو نظر انداز نہیں کر پائیں گے۔ جس سے ہماری امریکا کے ساتھ بات چیت میں اہمیت بڑھے گی۔ اور پھر اس اہمیت کو استعمال کرتے ہوئے ہم افغانستان کے طالبان کو وہاں پر سیاسی عمل میں کلیدی کردار دلوانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ شمالی وزیرستان سے پاکستان بھر میں پھیلائی گئی دہشت گردی ایک قومی اتفاق رائے کو جنم د ے گی۔ جو سیاسی جماعتیں بات چیت کا رستہ اپنانے کے نظریے کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ بھی آخر کار یہ ماننے کو تیار ہو جائیں گی کہ ریاستی اختیار محض سفید جھنڈا لہرا نے سے قا ئم نہیں ہو گا۔ تیسرا مفروضہ یہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کے طالبان کی مدد سے ہاتھ دھو بیٹھے گی اور ملک میں ملٹری آپریشن کرنے سے متعلق اتفاق رائے پاکستان کی فوج کو مینڈینٹ فراہم کرے گا جس کو استعمال کرتے ہوئے یہ خطرہ ہمیشہ کے لیے زائل کر دیا جائے گا۔
مگر ستاروں کی چال نے یکے بعد دیگرے ان تینوں مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اور اِس وقت ہم عملاً ایسی کیفیت میں ہیں کہ جس میں ہمار ے پاس نہ تو افغانستان کے حالات پر اثر انداز ہونے کا کوئی خاص پتّا موجود ہے۔ اور نہ اندرونی طور پر ہم یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کا کوئی لائحہ عمل بنا پا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے حقانی نیٹ ورک کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جلال الدین حقانی نے، جو کسی زمانے میں امریکا کا سب سے پسندیدہ مجاہد تھا، جو نیٹ ورک بنایا وہ سالہا سال کی شدید اور مہنگی کوشش کے باوجود نیٹو اور ایساف کے ہاتھوں افغانستان میں شکست خوردہ نہ ہوا۔ اس کے برعکس امریکا کی غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نیٹ ورک نے خود کو اس پوزیشن میں لا کھڑا کیا  جہاں تمام تر اعتراضات کے باوجود امریکا اور یورپی ممالک اس سے افغانستان کے حتمی حل کے لیے بات چیت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
چند ماہ پہلے تک یوں لگ رہا تھا کہ جیسے امریکا حامد کرزئی کو حقانی نیٹ ور ک سے دوستی کی قیمت کے طور پر قربان کر دے گا۔ اب معالات بدل گئے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیرالدین حقانی کا قتل پاکستان کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ ہم ہمیشہ سے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان کے اندر موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس قتل نے اس پوزیشن کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کا الزام بھی تحریک طالبان کی طرف سے  پاکستان کی ایجنسیوں پر لگایا جا رہا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے ایک کلیدی رکن کی ہمار ے دارلحکومت  میں موجودگی اور پھر اُس کے تحفظ میں ناکامی نے ہمیں دوستوں اور دشمنوں دونوں کے سامنے انتہائی کمزور حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ ظاہر ہے حقانی نیٹ ورک اس قتل سے خوش نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اس قتل میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، جس کا قوی امکان ہے، تو اس سے افغانستان میں امریکا کی طالبان سے بات چیت کے بار ے میں بدلتی ہوئی ترجیحات واضح نظر آتی ہیں۔ حامد کرزئی جس کو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مکمل طور پر غیر اہم سمجھا جا رہا تھا، صدارت سے نکلتے ہوئے بھی اپنا وجود تسلیم کرا رہا ہے۔
دوسر ے محاذوں پر بھی حالات ہمارے قابو میں نہیں ہیں۔ امن مذاکرات اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل نے قومی منظر نامے کو واضح کرنے کے بجائے مزید دھندلا دیا ہے۔ اتفاق رائے تو دور کی بات وہ گند اچھالا جا رہا  ہے کہ خدا کی پناہ۔ بدترین حالات میں اس قسم کے بیانات سامنے نہیں آئے جیسے اس وقت ہر کسی کی زبان پر ہیں۔ پاکستان کی آرمی کا جماعت اسلامی کے امیر کے الفاظ پر غیرمعمولی مذمتی پریس ریلیز جاری کرنا،ہمارے ملک میں موجود اندرونی انتشار کی ایک مثال ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے خیالات سے عملا ً اتفاق کرتی ہے۔ اگرچہ بیان کا انداز مختلف ہے۔ مسلم لیگ نواز پلید جانوروں کی شہادت کے عظیم فتوے، غدار اور حب الوطن کے الزامات اور تمغوں کے اس تماشے میں سب کو راضی رکھنے کے چکروں میں ہے۔ کبھی آرمی کے حق میں بیان دے دیتے ہیں تو کبھی حکیم اللہ محسود کے مارے جانے پر آہ و زاری کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ یہ امریکا کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے اور پھر اسی سانس میں تضاد کی شرمندگی اٹھائے بغیر ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جنگ ہمار ے مسائل کا حل نہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ اپنی حکومت کے تعلقات پر اتراتے بھی ہیں۔ اور پھر حامد کرزئی کو یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ حقیقت میں دوستی صرف انھی کے ساتھ ہے۔ ڈرون حملے پر چیختے بھی ہیں اورہر حملے کو ہضم بھی کر لیتے ہیں۔ اس تمام بھگڈر میں قومی توجہ اور یکسوئی پیروں تلے آ کر کچلی گئی ہے۔ کسی کو نہیں پتہ کہ ہم کیا چاہتے ہے اور کیا کر رہے ہیں۔
ان حالات نے ملک میں دہشت گردی کے تمام دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں۔ جب قانون کا نفاذ کرنے والے شہریوں کے محافظ سیاسی قیادت کے طعنوں اور گھمبیر الزامات کا نشانہ بننے لگ جاتے ہیں تو آپ خود سمجھ لیں کہ وہ اپنی ذمے داری کتنی دلچسپی سے سرانجا م دینے پر مائل ہوں گے۔ پاکستان کی پالیسی میں بڑھتی ہوئی دراڑیں افغانستان سے لے کر پشاور، اسلام آباد اور لاہور و کراچی تک پھیل چکی ہیں۔ چھ ماہ پہلے تک جن سرحدوں کے بار ے میں ہم مطمئن و مسرور تھے، وہ اب با رودی سر نگوں کی طرح ہمار ے قدموں کے نیچے پھٹ رہی ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے 

Post a Comment

أحدث أقدم