دنیاکی طاغوتی قوتیں طاقت اوروسائل کی بنیادپرجنگیں لڑتی ہیں جبکہ مسلمان اسباب پرکم اوراللہ پرزیادہ اعتمادکرتے ہیں


"پمپرپوش" امریکی افواج کامعرکہ.؟

دنیاکی طاغوتی قوتیں طاقت اوروسائل کی بنیادپرجنگیں لڑتی ہیں جبکہ مسلمان اسباب پرکم اوراللہ پرزیادہ اعتمادکرتے ہیں اوراسی بنیادپرمیدان کارزارمیں کودتے ہیں اورمعرکہ سرکرتے ہیں

،دنیاکے سپرپاوراورکمزورترین ملک کاآمناسامناہوا،میدان سج گیا،تیرہ برس مسلسل میدان کارزارگرم رہا۔اب دیکھنایہ ہے کہ افغانستان کے معرکہ ایمان ومادیت میں کون فتح سے ہمکناراورکون شکست سے دوچارہے؟یہاں ایک طرف ٹیکنالوجی تودوسری طرف ایمان ہے اب میدان کس کے ہاتھ میں ہے؟پلڑاکس کابھاری ہے؟حقیقی فاتح کون ہے؟زمینی حقائق اورمعروضی حالات کس کی نشاندہی کرتے ہیں؟جنگوں اورلڑائیوں کی پوری تاریخ کااگرجائزہ لیاجائے تواس میں ہتھیاربند،زرہ پوش،شمشیربدست اورنیزہ بردارسپاہی نظرآئیں گے،مگریہ ایک ایسی جنگ ہے جس نے "پمپرپوش"اور"ٹشوبدست سپاہی"بھی متعارف کرادیئے ہیں اورعالمی تاریخ میں شایدپہلی بارایساہواہے کسی ملک کواپنے بہادرسپاہیوں کے لیے پمپرزکابھی انتظام کرناپڑا۔یہ اس ملک کے سپاہی ہیں جس کے پاس دنیاکی ترقی یافتہ ترین جنگی ٹیکنالوجی موجودہے اورجس کی عسکری طاقت کادنیامیں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔اگرکسی کے پاس ایمان،اخلاص،غیرت،جرأت اورجذبہ نہیں ہے تودنیابھرکااسلحہ اورسارے عالم کی لاجسٹک سپورٹ بھی اس کے کسی کام نہیں آسکتی۔

اگرآج بھی کسی کے پاس ایمان کی دولت اورجہادکاجذبہ ہوتووہ نہتے ہوکربھی دشمن کے اعصاب پرسوارہوکراس کے اوسان ہی نہیں،پیشاب بھی خطاکرواسکتاہے۔ان کوپاگل اورنفسیاتی مریض بناسکتاہے۔چندروزقبل صوبہ زابل کے صوبائی دارالحکومت قلات میں ایک حیرت انگیزواقعہ رونماہوا،انگورکے باغ سے طالبان نے پیدل گشت پرمعمورامریکی فوجیوں پرفائرنگ کردی ,فوجی اہلکار وہاں سے واپس ہوکراپنے مرکزچلے گئے اورکچھ دیربعدٹینکوں اورفوجی گاڑیوں کے ہمراہ کانوائے کی شکل میں واپس آئے ،فضامیں ہیلی کاپٹران کی نگرانی اورحفاظت کے لئے گھوم رہے تھے،جب وہ انگورکے باغ کے قریب پہنچے تومقامی لوگوں سے پوچھاکہ طالبان کہاں گئے؟

لوگوں نے جواب دیاوہ یہاں سے جا چکے ہیں جس پر ان کی تسلی نہ ہوئی اوروہ باغ کے اندرگھس گئے ایک امریکی اہلکارباغ میں کچھ آگے نکل گیاباغ میں اسے کسی چیز کی آوازسنائی دی اس کے منہ سے یکدم ایک زوردارآوازنکلی اس کوخیال ہواکہ طالبان انگورکے درخت کے نیچے چھپے ہوئے ہیں اوراب نکل کراس پرحملہ کردیں گے اسی دوران وہاں سے ایک گیدڑنکلااوربھاگ گیا، دوسرے فوجیوں نے اپنے ساتھی کی خوفناک آوازسنی تو اس جانب دوڑے جب وہ وہاں پہنچے تودیکھاوہ فوجی مردہ حالت میں پڑا تھا۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک تربیت یافتہ فوجی گیدڑجیسے بزدل حیوان کے خوف سے موقع پرہلاک ہوسکتا ہے تووہ بارودبردارطالبان کاکیامقابلہ کریں گے،ان کی جرأت اوربہادری کایہ عالم ہے کہ ان کا ایک تربیت یافتہ اہلکار جب جانور کی آہٹ سے خوف کے مارے ہلاک ہو گیا تووہ ان بہادرجنگجووں کاکیامقابلہ کریں گے جوتمنائے موت کے جذبے سے سرشارہر وقت اپنے جسموں سے بارودباندھے رکھتے ہیں،مسکراہتے ہوئے شہادت کی موت کوقبول کرتے ہیں اورفوجی اڈوں کے اندرگھس کردشمن پرفدائی حملوں کی یلغارکرتے ہیں،سامنے دشمن پرتابڑتوڑحملے کررہے ہیں،دشمن بھاگتے اور یہ ان کاتعاقب جاری رکھتے ہیں،وہ میدان جنگ میں پمپرپہنتے ہیں اوریہ اپنی کمرسے بارودباندھتے ہیں،کیاپمپرپوش افواج جنگ زدہ ملک میں بارودبردارغازیوں کامقابلہ کرسکتی ہیں؟کامیابی کن کے قدم چھومے گی؟جب ایک طرف اللہ کے باغی اوردوسری طرف اللہ کے دین پرجان لٹانے والے غازی آمنے سامنے ہوں،ایک کااعتمادٹیکنالوجی پرہوتودوسرے کاتوکل اللہ پرہو،ایک مال ودولت سے مالامال اورجدیداسلحہ سے لیس تودوسراایمان کی قوت سے مالامال اورتائیدایزدی کی نصرت سے بہرہ ورہوتوفتح کس کونصیب ہوگی،میدان کون مارے گا،ظاہرہے ہم مسلمان ہیں اوراللہ پریقین رکھتے ہیں اوراسی کی رضاکے لئے اسی کے توکل پراپنالہودیکرمیدان کارزارسجاتے ہیں تاریخی لحاظ سے بھی ہمیشہ میدان ہم نے ہی ماراہے،خواہ فرنگی استعمارسے آزادی ہو،سوویت یونین کامقابلہ ہویاعصرحاضرکافرعون امریکہ اوراس کی چاردرجن اتحادی افواج کے ساتھ معرکہ ہو،شکست ان کامقدرہے اوربالآخر فتح افغان قوم کوہی نصیب ہوگی۔

بات اب ان کی سمجھ میں آئی کہ امریکہ افغانستان میں انسانی کھوپڑیوں کے مینارتوکھڑے کرسکتاہے لیکن زندہ افغانوں کوفتح نہیں کرسکتا،ہزاروں فوجیوں اورکھربوں ڈالرکے ضائع کرکے امریکہ افغانستان میں ناکام رہاجبکہ دوسری جانب ساری دنیاکی مخالفتیں اورالزامات سہنے کے باوجودطالبان آج بھی عزم،حوصلے،ہمت،نظریے اورمقاصدکے لحاظ سے اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں آج سے تیرہ برس قبل تھے اوروہ افغانستان میں دوبارہ برسراقتدارآنے کی نہ صرف امیدرکھتے ہیں بلکہ عملااس کی قدرت اورصلاحیت بھی رکھتے ہیں ،اب بھی ان کے زیرکنٹرول علاقہ 91فیصدبتایاجاتاہے،نیٹوحکام کے اعتراف کے مطابق افغانستان کے 34صوبوں میں سے 32میں طالبان کی متوازی حکومت قائم ہوچکی ہے،ان کے پاس اسلحے کی مقداربڑھ گئی ہے اورجنگ کے نئے طریقے انہوں نے سیکھ لئے ہیں،افغان عوام بھی ان سے خوش ہیں اوروہ طالبان دورکی واپسی کے خواہش مندہیں ۔

کیسی عجیب بات ہے طالبان وہاں مقبول ہے جہاں امریکہ نے سب سے بڑی جنگ لڑی،جب صورتحال یہ ہے کہ عوام طالبان کاکھلم کھلاساتھ دے رہی ہے،طالبان کاافغانستان کے تقریبانوے فیصدعلاقے پراثرورسوخ اورکنڑول ہے یہاں تک کہ بدخشان جیساصوبے میں بھی طالبان دواضلاع فتح کرکے پیش قدمی کررہے ہیں اوراہم کامیابیاں حاصل کررہے ہیں، جہاں وہ اپنے دورحکومت میں بھی نہ پہنچ سکے تھے۔ان وجوہات کی بناءپرامریکہ افغانستان چھوڑکرجارہاہے،ملک کے طول وعرض میں سات سوفوجی اڈے خالی کرکے فوجیوں ،ٹینکوں اورجنگی سازوسامان کوملک سے نکال کرلے جارہاہے ،افغانستان کامستقبل طالبان ہی ہیں اوروہ دن دورنہیں کہ آزادوخودمختارملک کے طورپراس میں ایک بارپھرعدل وانصاف پرمبنی اسلامی نظام حکومت نافذہوگااورشہداءکامقدس خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
انشاءاللہ تعالیٰ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post