’میں حیدرآباد کے علاقے دل سُکھ نگر میں اپنے کالج کے جانب جا رہی تھی۔ میں بس سے اتری اور پیدل چلنے لگی، سامنے سے آنے والے چند مردوں میں سے دو اچانک میرے انتہائی قریب آ کر چلنے لگے اور پھر ایک نے میری چھاتی پر چٹکی بھر دی۔۔۔‘
یہ اُن سینکڑوں شکایات میں سے ایک ہے جو شہر میں ’جنسی ہراس‘ اور عورتوں کے خلاف جرائم کے واقعات کی رپورٹنگ میں بہتری لانے کے لیے بننے والی ویب سائٹ ’سیف سٹی ڈاٹ اِن‘ پر موصول ہوئی ہیں۔ یہ ویب سائٹ گذشتہ سال دسمبر میں دہلی کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی ریپ کے واقعے کے بعد بنائی گئی تاکہ شہر کے ان مقامات کی نشاندہی کر سکے جہاں ایسے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں۔
اس ویب سائٹ پر ایک انٹریکٹیو نقشہ بھی موجود ہے جو بھارتی شہروں میں زیادہ غیر محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
حیدرآباد سے آنے والی اس شکایت میں مزید لکھا ہے ’میں صدمے میں تھی، میں کسی سے بات نہیں کر سکتی تھی۔ میں پولیس کو شکایت بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میں نے اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھا تھا جس میں مجھے چٹکی بھری۔ اس علاقے میں ایسے کئی اور واقعات بھی ہوئے ہیں۔‘
بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے والے قومی ادارے کے مطابق ملک میں ہر تین منٹ میں ایک عورت کا استحصال ہوتا ہے اور ہر بیس منٹ بعد ایک عورت کا ریپ ہوتا ہے۔ اور یہ اعداد و شمار بھی صرف ان واقعات کے ہیں جن کا سرکاری اندراج کیا گیا یا پولیس رپورٹ کی گئی ہے۔
ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو دل سکھ نگر کے اس واقعے کی طرح کبھی درج نہیں ہوتے اور نہ جرائم کے اعداد و شمار میں جگہ پاتے ہیں۔
یہ ویب سائٹ چار مرد و خواتین نے مل کر بنائی ہے۔ سریا ویلامری ، ایلس ڈیسیلوا ، سلونی ملہوترا، اور ادتّیا نے عوامی معلومات کی بنیاد پر پورے بھارت کے محفوظ اور غیر محفوظ علاقوں کی نشاندہی کی ہے۔
’سیف سٹی‘ نامی اس ویب سائٹ پر کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی حصے سے رپورٹ کر سکتا ہے۔
سریا ویلامری کا کہنا ہے: ’ ہم خود سے پوچھتے ہیں کہ عورت ہونے کے ناتے معاشرے میں ہمیں برسوں سے کیا چیزیں ہیں جو پریشان کر رہی ہیں؟‘
’ہم بھارتی رویے کا ایک قاعدہ بنانا چاہتے ہیں اس لیے ہم نے اس میں استحصال کی درجہ بندی کی ہے جس میں جملے کسنا، چھونا، جسم ٹٹولنا، جنسی ترغیب دینا اور قابلِ اعتراض نمائش کرنا شامل ہیں۔‘
گذشتہ سال آغاز کے بعد سے دارالحکومت دہلی سمیت ملک بھر سے ’سیف سٹی ڈان اِن‘ نے جنسی استحصال کی 962 شکایات موصول کی ہیں۔ سب سے زیادہ شکایات دہلی سے موصول ہوئیں جن کی تعداد 781 تھی اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔
سیف سٹی نے استحصال کی درجہ بندی کی ہے جس میں جملے کسنا، چھونا، جسم ٹٹولنا، جنسی ترغیب دینا اور قابلِ اعتراض نمائش کرنا شامل ہیں۔
ویلامری کہتی ہیں: ’ہماری سائٹ پر یہ نقشہ کئی طرح سے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ عورت ہیں اور کسی نئے شہر میں سفر کر رہی ہیں تو اس نقشے پر ڈالی گئی ایک نظر آپ کو وہاں کے محفوظ اور غیر محفوظ مقامات کے بارے میں بتا سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر آپ شہر کے کسی مخصوص حصے سے آنے والی زیادہ شکایات کو دیکھیں تو اور یہ پولیس اور انتظامیہ کے لیے بھی مددگار ہو سکتی ہے کہ وہ شہر کو غیر محفوظ بنانے والے عناصر کا سدّباب کر سکیں، جیسا کہ کم روشنی والے علاقے، پولیس کے ناقص گشت، اور بد معاش افراد کی موجودگی۔‘
اس ویب سائٹ کی مقبولیت کی ایک خاص بات اس کے صارفین کی شناخت کا مخفی ہونا ہے۔
’ہم نے یہ محسوس کیا کہ بھارت میں خواتین عام طور پر خوفزدہ ہوتی ہیں یا انہیں جنسی استحصال کی رپورٹ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ وہ اپنی شناخت اور نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ لیکن یہاں آپ ہر اندارج کو بے نام پائیں گے۔‘
لیکن ویلامری تسلیم کرتی ہیں کہ اس سے مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ’چونکہ صارف اپنی شناخت یا رابطے کے لیے تفصیلات نہیں چھوڑتا اس لیے ان رپورٹس کی تصدیق مشکل ہوتی ہے۔‘
تاریک سڑکیں بھی عورتوں پر حملوں کے عناصر میں شامل ہیں۔
’سیف سٹی‘ نے حال ہی میں گووا پولیس سے اشتراک کیا ہے اور اگر کسی کو گووا میں باقاعدہ شکایت درج کروانی ہو اور وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکتی ہوں تو ان کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
ویلامری کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم پولیس کے ساتھ مختلف شہروں اور قصبوں میں ایسے مزید رابطوں کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
اس وقت یہ تنظیم دارالحکومت دہلی اور اس کے مضافات میں سو غیر محفوظ ترین علاقوں کی نشاہدہی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
رضا کاروں کی ایک ٹیم اعداد و شمار اکٹھے کر رہی ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ دہلی کے رہائشیوں کی ایک لاکھ شکایات ویب سائٹ پر شائع کریں گے۔ اگلے مرحلے میں ان شکایات کے حوالے سے پولیس اور حکام کے بات کی جائے گی۔
اس معاملے میں کامیابی فی الحال دور ہے۔
ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی کے ملک میں صرف 13 کروڑ انٹرنیٹ صارفین ہیں اور دیہاتی علاقوں میں محدود انٹرنیٹ رسائی ہے۔ ایسے میں ’سیف سٹی ڈاٹ ان‘ کے سامنے پورے ملک کے ہر کونے کا نقشہ بنانے کا سفر بہت طویل ہے۔
Post a Comment