Baharat main hum jins parasti ghair qanooni qarar - بھارت:ہم جنس پرستوں کے درمیان جنسی تعلق غیرقانونی

Baharat main hum jins parasti ghair qanooni qarar - بھارت:ہم جنس پرستوں کے درمیان جنسی تعلق غیرقانونی


بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تعزیرات ہند کے تحت ملک میں ہم جنس پرستوں کے درمیان جنسی تعلق غیر قانونی ہے اور دہلی ہائی کورٹ نے اسے جرم کے زمرے سے نکال کر غلطی کی تھی۔

عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو ’قانونی طور پر غلط‘ قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت کو اس پر غور کرنے کو کہا ہے۔



دلی ہائی کورٹ نے 2009 اس انتہائی حساس موضوع پر ایک تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377 سے مساوات کے اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس دفعہ سے انفرادی آزادی مجروح ہوتی ہے جو کہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔

بھارتی تعزیرات کی دفعہ 377 کے تحت ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان جسمانی تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس فعل کے لیے انہیں دس سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

تعزیراتِ ہند کی دفعہ 377


دفعہ 377 تقریباً ڈیڑھ سو برس پرانا ایک قانون ہے جس کے تحت صرف مرد اور عورت کے درمیان روایتی اور مروجہ جنسی تعلق کو ہی جائز جنسی فعل مانا گیا ہے۔ جبکہ دوسر ے تمام طریقوں کو نہ صرف غیر فطری قرار دیا گیا ہے بلکہ انہیں غیرقانونی اور قابل سزا عمل کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

لیکن ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ہندو، عیسائی اور مسلم مذہبی تنظیموں نے چیلینج کیا تھا۔ ان کا موقف ہے کہ ہم جنس پرستی غیر فطری عمل ہے اور اس جرم کے زمرے میں ہی شامل رہنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ برس مارچ میں ایک مہینے کی لگاتار سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بدھ کی صبح سنایا گیا۔

اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں سماجی کارکن اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ ہائی کورٹ کورٹ کا فیصلہ ہم جنس پرستوں کے حقوق اور ایڈز کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ناز فاؤنڈیشن کے ایک پٹیشن پر سنایا گیا تھا۔

ناز فاؤنڈیشن اور تحریک سے وابستہ دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس کیس سے وابستہ ایک وکیل اروند نارائن نے کہا کہ ’یہ ایک سیاہ دن ہے، سپرپم کورٹ مساوات کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے جس کا وعدہ دستور ہند میں کیا گیا ہے، یہ عدالت کے سب سے برے فیصلوں میں سےایک ہے۔‘


ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والوں میں مسلم پرسنل لا بورڈ بھی شامل تھا جس کے اعلی عہدیدار ظفریاب جیلانی نے کہا کہ عدالت نے سماجی اقدار کا تحفظ کیا ہے اور فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

لیکن ہم جنس پرست گروپ اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔

بھارت میں کئی برسوں سے ہم جنس پرستی متنازع اور بحث طلب مسئلہ رہا ہے۔ کئی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے دلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سے ہم جنس پرستی کے خلاف مہم تیز کر دی تھی۔

اس کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما بی پی سنگھل کر رہے ہیں جنہوں نے ہم جنس پرستی کو غیر اخلاقی، غیر قانوی، بھارتی تہذیب و ثقافت کے خلاف اور غیر فطری عمل بتایا تھا۔

ادھر ہم جنس پرست اور حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک عرصے سے حکومت سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ وہ دفعہ 377 کو ختم کر دے۔ ان کی دلیل تھی کہ ہم جنس پرستی سماج کی ایک حقیقت ہے اور اسے بدلتے ہوئے حالات میں قانونی طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post