اسلام آباد: سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام اقدامات ملک اور عوام کے مفاد میں کئے اور انہیں توقع نہیں تھی کہ غداری کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا تاہم اگر انہیں غداری مقدمے میں سزا ہوئی تو وہ معافی کی درخواست نہیں مانگے گے۔
ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ وہ ایسی کسی ڈیل کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ ڈر کر ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے، تمام مقدمات میں انصاف چاہتا ہوں، معافی مانگنے کا عادی نہیں اگر سزا ہوئی تو حکومت سے معافی کی درخواست نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں جنرل کیانی نے ساتھ نہ دیا تو مایوسی ہوئی، یہ نہیں پتہ کہ جنرل کیانی نے کیس میں حلف نامہ جمع کیوں نہیں کرایا جب کہ وہ تمام معاملات میں حصہ دار تھے۔
سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر کو وہ ہوائی جہاز میں تھے اور ایکشن زمین پر ہوا جبکہ ایک حاضر سروس آرمی چیف کو ہدایات دی جارہی تھیں کہ اپنی سرزمین کے بجائے بھارت لینڈ کیا جائے، اگر کیس کھلا تو پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف 12 اکتوبر کیس سے بچنا چاہتے ہیں اور انہیں خوف ہے کہ کہیں اس کیس میں انہیں نہ جکڑ لیا جائے تاہم دلچسپ بات ہے کہ نواز شریف 12 اکتوبر کیس سے دور رہنا چاہتے ہیں اور پیپلزپارٹی اس مقدمے میں دلچسپی رکھتی ہے، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگی ہیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ نوازشریف کو جیل میں سہولیات نہیں دی گئیں، اٹک قلعہ میں نواز شریف کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئیں۔
تین نومبر کی ایمرجنسی کے حوالے سے سابق صدر کا کہنا تھا کہ یہ کسی فرد واحد کا فیصلہ نہیں تھا، ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے خط لکھا، جس کی منظوری کابینہ نے دی جبکہ اس پر پارلیمنٹ میں قرارداد بھی منظور کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خط میں لکھا تھا کہ عدالتیں دہشتگردوں کو رہا کر رہی ہیں جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے جبکہ ملک میں دہشتگردی بڑھ رہی تھی اور جمہوری عمل بھی داؤ پر لگ چکا ہے، حکومتی معاملات میں عدالتی مداخلت کے باعث معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا تھا، ان حالات کے پیش نظر ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی۔
27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بلا کہنے کے سوال پر پرویز مشرف نے کہا کہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کس بلے نے دودھ پیا اس کا سب کو علم ہے، ممکن ہے کہ یہ بیان دیکر حکومت اور فوج کو لڑانے کی کوشش کی گئی ہو۔
سابق صدر پرویز مشرف نے ایک سوال پر کہا کہ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی وجہ سے ملک سے باہر نہیں گیا، افتخار چوہدری سینئر ترین جج تھے جس کی بنا پر انہیں چیف جسٹس آف پاکستان لگایا گیا تاہم پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جو عدلیہ اور حکومت کا تصادم دیکھنے میں آیا وہی کچھ ان کے دور میں ہورہا تھا۔ پرویز مشرف نے مزید کہا کہ اگست 2008 میں ہی صدارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا، بے مقصد صدر بن کر ہر گز رہنا نہیں چاہتا تھا جو ایوان صدر میں صرف بیٹھا رہے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے دوبارہ وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا،ملک و قوم کی خراب صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیاست میں آیا اور سیاسی جماعت بنائی جبکہ میرے اکاؤنٹس منجمند اور پراپرٹی سیل تھی جس کے لئے عدالتوں کا سامنا بھی کیا اور کامیاب ہوا۔
پرویز مشرف نے کہا کہ اگر انہیں پرکھنا ہے تو ان کی کارکرگی پر پرکھا جائے اور عدالت سے انصاف چاہتے ہیں اور کچھ نہیں، انہوں نے کہا کہ والدہ کے لئے کسی اور سے بھیک مانگ لوں گا لیکن موجودہ حکومت سے ہر گز نہیں۔
Post a Comment