بلاول بھٹو سیاست میں اڈاریاں مار رہا ہے، اپنے نانا، اپنی ماں اور اپنے باپ کی
نقل کرتے ہوئے مخالفوں کی بھد اڑا رہا ہے، بھٹو نے اس قسم کی سیاست کی ابتدا کی تھی، نور خاں پر اصغر خان کی پھبتی کسی۔ لاہور کی مال روڈ پر نورانی کی پگڑی اچھالی گئی، ایک کارٹون میں مودودی کا سر ایک رقاصہ کے دھڑ پر ٹکا دیا گیا۔اور آخری وار قائد اعظم کے پاکستان اور ان کے نظریہ جمہوریت پر یہ کہہ کر کیا گیا کہ ادھر ہم، ادھر تم۔ اور پھر انہونی ہو کر رہی۔
والدہ کی تربیت خاص طور پر بھٹو نے کی تھی، جیل کی کال کوٹھری میں کانا پھوسی کے انداز میں اسے سیاست کے گر سکھائے۔ بے نظیر سیاست کے میدان میں اتری تو اس نے نواز شریف کا ایک فقرے میں جھٹکا کر دیا، بات کہنے کی نہیں ، کہ بات ہے رسوائی کی مگر بے نظیر نے سر عام کہی اور میڈیامیں چھپی، نواز شریف کو شیر کا بچہ کہا جاتا تھا، بے نظیر نے اسے تہمت بنا دیا۔ لاحول ولا۔ اور پھر نوازکے ایک متوالے شیخ رشید محترمہ کے بارے میں فحش کلامی کرتے رہے۔ حسین حقانی نے اک پمفلٹ چھاپااورلاکھوں کے ایک جلوس میں تقسیم کیا گیا، اس پمفلٹ پر نصرت بھٹو کی تصویر تھی جو رقص میں مصروف تھیں۔ زرداری کو سیاسی میراث ملی تو انہوں نے بھٹو کی طرح پاکستان کو للکارا اور بار بار للکارا کہ پہلے ہتھیار ڈالے تھے تو چند لاکھ قیدی تھے جو بھارت نے سنبھال لئے ، پھر افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دے دی لیکن اگر بیس کروڑ انسانوں کو ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑا تو روئے زمین ان پر تنگ ہو جائے گی، زرداری نے یہ دھمکیاں گڑھی خدا بخش کی تقریروں میں دیں اور صدر مملکت ہوتے ہوئے دیں، ان کا مطلب یہ تھا کہ سندھ کی پارٹی کے ساتھ اب کسی نے چھیڑ چھاڑ کی تو دمام دم مست قلندر ہو گا اور بیس کروڑ پاکستانیوں کو جائے اماں نہیںمل پائے گی۔زرداری سال بھر ایوان صدر میں چھئی مار کر بیٹھے رہتے اور دسمبر میں گڑھی خدا بخش کا رخ کرتے تو ان کے اندر سے ایک آتش فشاں پھوٹ نکلتا۔
بلاول کو بھٹو، بے نظیر اور زرداری کی تقریروں کی فلمیں دکھا دکھا کر اسٹیج پر دھکیلا گیاہے۔ زرداری اور بلاول کا سپیچ رائٹر ایک نہیں ہے، ان کو تقریر میںجوش وجذبہ دکھانے کا فن بھی سکھانے والا کوئی اور ہے ۔ اگرچہ ان کے عین عقب میں ہشام ریاض شیخ کھڑے نظر آتے ہیں جو ایک عرصے سے بلاول کے پولیٹیکل سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن ان سے ایسی استادی کی توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی۔ و ہ تو اپنے ملنے والوں کے سامنے کبھی ہونٹ بھی کھولتے دکھائی نہیں دیئے۔چلئے استاد کوئی بھی ہو سکتا ہے، شاگرد تو بلاول ہی ہے نا اور سمجھ یہ آ رہی ہے کہ ایک ناپختہ بلاول کو سیاست کے گھوڑے پر سوار کرا دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ابھی زرداری ایک اننگز تو بڑی آسانی سے کھیل سکتے ہیں، مک مکا کا فارمولا کارگر ثابت ہو رہا ہے، پہلے زرداری نے کہا کہ میاں جی قدم بڑھاﺅ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، اب بلاول کہہ رہا ہے کہ انکل نواز! میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔یہ ساتھ مارشل لا کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی حد تک ہے ورنہ کہاں بلاول اور کہاں انکل نواز، انکل تو اسے شاید اگلے بیس برس تک ملنے کا ٹائم ہی نہ دیں،کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
پچھلے الیکشنوں میں بی اے کی شرط نے کئی جغادری سیاستدانوں کو انتخابی سیاست سے باہر کر دیا ، ہر کسی کو اپنا بی اے پاس ہونہار بروا آگے لانا پڑا ، نتیجہ یہ ہوا کہ اسمبلیوں میں چوسنی گروپ کی بھرمار ہو گئی، انہیں تو کسی یونین کونسل کو چلانے کا تجربہ نہیںتھا کجا ان کو وزارتیں مل گئیں اور وہ بھی اہم اور کلیدی۔ان کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے، مگران کی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاںچھن گئیں۔اور پہاڑ جیسے مسائل ان کے کندھوں پر آن پڑے۔حمزہ، مریم،بلاول ،بختاور، آصفہ کو نو عمری اور نوجوانی دیکھنا نصیب ہی نہ ہوئی،انہیں مغل اعظم کے شاہی دربار میں بٹھا دیا گیا، جیالے اور متوالے ان کے آگے پیچھے تھے۔ مغل شہزادوں کی طرح کار شاہی ان کو بیٹھے بٹھائے ورثے میں مل گیا، آسمان سے ہن برسنے لگا، سوس بنکوں کی دولت، لندن اور پیرس کے محلات، ملکوں ملکوں پھیلا ہوا کاروبار اور عالمی شاطروں سے براہ راست تعلقات ۔ا ب پاکستان کی قسمت اس شیر خوار ٹولے کے ہاتھ میں ہے، کار حکومت اور کار سیاست جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور سیاسی طور پر نابالغ بچوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، اللہ خیر ہی کرے۔
اور اللہ خیر ہی کرے گا ۔ اس وقت ملک میںباسٹھ فی صد سے اوپر وہ نوجوان ہیں جو پچیس سے تیس سال کی عمر کے ہیں لیکن سب کے سب جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ۔ وہ روایتی سیاستدانوں سے بیزار ہیں۔ایم پی اے اور ایم این اے کی حویلیوںکا طواف کرنا ان کی اناکو گوارا ہی نہیں، وہ ڈھور ڈنگروں کی طرح ہانکے نہیں جا سکتے، وہ نہ متوالے ہیں، نہ جیالے ، انہوںنے عمران خاں کے کھوکھلے پن کو بھی دیکھ لیا، ان پر لیپ ٹاپ کی بازی گری بھی اثر نہیں کر سکی۔وہ سودی قرضے کے جنجال میں بھی پھنسنے کے لئے تیار نہیں، وہ قوموں کی برادری میں برابری کے اصول پر زندہ رہنے کی امنگ سے سرشار ہیں ، انہیں امریکی غلامی قبول ہے ، نہ وہ بھارتی سامراج کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ ان باسٹھ فی صد نوجوانوں کو صحیح راستہ نہ دکھایا گیا تو وہ ایک بم کی طرح پھٹیں گے اور پرانی طرز سیاست کو بھسم کر کے رکھ دیں گے۔زرداری نے کہا ہے کہ بلارات کو آکر دودھ پی جاتا تھا، زرداری جس محلول کو دودھ کہتے ہیں ، وہ اصل میںپرانی باسی لسی تھی،جس میں سے مکھن بھی نکال لیا گیا تھا اور بالائی پہلے چاٹ لی گئی تھی۔ فوجی بلوں نے دودھ کی بجائے باسی لسی پر گزارا کیا، زرداری صاحب حساب لگائیں کہ کسی ایک سیاستدان کے شیر خوار بچے کی دولت ایک طرف اور تمام فوجی جرنیلوں کی دولت ایک طرف ، پھر بھی شیر خوار کا پلڑا بھاری ثابت ہو گا۔
نئی نسل اس لوٹ مارا ور کرپشن کے خلاف ہے۔ پاکستان میں برسر اقتدار طبقہ کرپشن میں لتھڑا ہو اہے جبکہ نوجوان ایک شفاف ٹرانسپیرنٹ نظام چاہتے ہیں، زر خرید ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل والا نظام ہرگز نہیں۔ میاں شہباز تو کئی بار خونیں انقلاب کی وعید سنا چکے ہیں، مگر کیا اس خونیں انقلاب سے دفاع کے لئے ہمارے پاس صرف بلاول، حمزہ اور مریم کا ٹرپل ون بریگیڈ ہی دستیاب ہے یا ہم اپنے جینوئن نوجوانوں کو رستہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ بہتر ہو گا کہ شیر خواروں کے منہ میں چوسنی ٹھونس کر ابھی کسی پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے۔
ُPublished in Nawa-i-Waqt 31 Dec 13
Post a Comment