Government’s deadly passion - حکومت کا جان لیوا شوق
حالانکہ چھ ماہ بھی گذر چکے ہیں۔ وفاق بظاہر کنٹرول میں ہے۔ نیا سپہ سالار بھی خوشگوار ٹائپ لگتا ہے۔ نئےچیف جسٹس بھی کام سے کام رکھنے والے ٹپائی دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی جانب سے بھی کسی قسم کا فوری خطرہ نہیں۔ سب سے بڑے سیاسی صوبے ( پنجاب ) پر بھی پہلے کی طرح مکمل گرفت نظر آتی ہے۔ سب سے بڑے جغرافیائی صوبے ( بلوچستان ) میں قائم مخلوط منمناتی حکومت بھی مسلسل شریف النفسی کا صبر آزما مظاہرہ کررہی ہے۔
وزیرِ اعظم کو موقع ملے تو اپنے برادرِ خورد سے بھی گاہے ماہے یہ شکوہ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اسلام آباد سے زیادہ لاہور پر توجہ دیں اور لاہور سے زیادہ بیرونِ لاہور کے مسائل کو خاطر میں لائیں۔چندی گڑھ ، دلی ، انقرہ اور لندن جاتے رہنا بھی ٹھیک ہے لیکن اٹک، گوجرانوالہ اور راجن پور وغیرہ کی ووٹ فیکٹریوں کے کبھی کبھار دورے میں بھی کوئی حرج نہیں۔"
سندھ کی حکومت بھی فی الحال کوئی بڑا چیلنج بننے کی پوزیشن میں نہیں اور تب سے اب تک کونے میں بیٹھی دہی کھا رہی ہے۔ عمران خان کو دل پشوری کے لئے خیبر پختون خواہ کا کھلونا ہاتھ آگیا ہے جسے وہ ایک متجسس بچے کی طرح مسلسل الٹ پلٹ کے توڑ مروڑ کے چیک کررہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کو بنگلہ دیش نے مصروف کررکھا ہے۔
اس تصویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ چھ ماہ گذرنے کے باوجود سرا ہاتھ آنا تو دور کی بات گڈ گورننس کے الجھے دھاگوں کے گولے کا حجم تک حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ اگرچہ ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ پورا ہے مگر کارِ سرکار کے ٹائر روزمرہ کے کیچڑ میں پھنسے پوری طاقت سے گھوم رہے ہیں۔ اور ڈرائیور سمجھ رہا ہے کہ گاڑی فل سپیڈ سے آگے بڑھ رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان پچھلے چھ ماہ سے کام کی تلاش میں ہیں۔ بھارت کی توجہ اگلے سال بھر انتخابات اور انتخابی نتائج کے ممکنہ نتائج پر مرکوز رہے گی۔ امریکہ بھی اگلا پورا برس پاکستان کو افغانستان کی انخلائی عینک سے دیکھنے پر مجبور رہے گا۔
اس قدر سازگار داخلی و خارجی حالات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اپنی توجہ حکمرانی پر مرکوز کرے اور عمران خان کو پولیو مہم کا قومی رابطہ کار بنادے۔ مولانا سمیع الحق سمیت جو اصحاب بھی طالبان سے مذاکرات شروع نہ کرنے کا طعنہ دے رہے ہیں انہیں طالبان کو مذا کرات کی میز پر لانے کا کام سونپ دے۔
جنرل شریف سے درخواست کرے کہ اگلے سال چھ مہینے تک بلوچ منحرفین پر ہاتھ ہولا رکھیں تاکہ بلوچستان حکومت کی کچھ تو عزت رہ جائے۔
اب جب کہ مرکز میں اہم تبدیلییوں کے بعد عمومی گمان ہے کہ وزیرِ اعظم کے احساس ِ عدم تحفظ میں بھی شائد کمی ہوچکی ہے تو یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ وزیرِ اعظم کسی روحانی پیشوا کی طرح اپنے پارلیمانی مریدوں کو کبھی کبھار درشن دینے کے بجائے قومی اسمبلی میں دو تین ماہ میں ایک مرتبہ قدم رنجہ فرماتے رہیں تاکہ یہ تاثر مسلسل نہ رہے کہ وہ پارلیمنٹ کو کمی کمینوں کی کمین گاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اور ایسوں ویسوں کو صرف چوہدری نثار علی جیسوں کی مدد سے ہی سیدھا رکھا جاسکتا ہے۔
وزیرِ اعظم کو موقع ملے تو اپنے برادرِ خورد سے بھی گاہے ماہے یہ شکوہ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اسلام آباد سے زیادہ لاہور پر توجہ دیں اور لاہور سے زیادہ بیرونِ لاہور کے مسائل کو خاطر میں لائیں۔ چندی گڑھ، دلی، انقرہ اور لندن جاتے رہنا بھی ٹھیک ہے لیکن اٹک، گوجرانوالہ اور راجن پور وغیرہ کی ووٹ فیکٹریوں کے کبھی کبھار دورے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
مگر ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ حکومت بڑے، اہم اور بنیادی داخلی و خارجی معاملات کے سینگوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے جھاڑ جھنکار اور راستے کے کانٹوں سے الجھنے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے اور ہر شے کو مٹھی میں لینے کا نوے کی دہائی کا جان لیوا شوق آج بھی جان نہیں چھوڑ رہا۔ ایسے کیوں لگ رہا ہے کہ شیر کا سانڈھ پر بس نہیں چل رہا تو وہ اپنی شیرانگی دکھانے کے لئے مرغوں اور بکروں کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔
گاڑی فل سپیڈ سے آگے بڑھ رہی ہے
اس تصویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ چھ ماہ گذرنے کے باوجود سرا ہاتھ آنا تو دور کی بات گڈ گورننس کے الجھے دھاگوں کے گولے کا حجم تک حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ اگرچہ ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ پورا ہے مگر کارِ سرکار کے ٹائر روزمرہ کے کیچڑ میں پھنسے پوری طاقت سے گھوم رہے ہیں۔ اور ڈرائیور سمجھ رہا ہے کہ گاڑی فل سپیڈ سے آگے بڑھ رہی ہے۔
جیسے اس وقت ’شریف۔ نثار حکومت‘ کی پوری توجہ نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی) کے چیرمین طارق ملک کے تعاقب یا پیمرا (پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) کے سربراہ رشید احمد کی چھٹی یا اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو طاہر محمود کی شکل گم کرانے کی سرتوڑ کوششوں پر ہے۔ لیکن مذکورہ تینوں افسر بھی عدلیہ سے اپنی برطرفیوں کے خلاف سٹے آرڈر حاصل کرکے شریف نثار حکومت کی ناک پر مسلسل منڈلاتی مکھی بن چکے ہیں۔
وہ تو شکر ہوا کہ اعزاز چوہدری کو عین آخری وقت میں فارن سیکرٹری بنا دیا گیا ورنہ وہ بھی اپنی سنیارٹی کا کیس پکڑے درِ انصاف کھٹکھٹانے کے لئے پرتول رہے تھے۔ جبکہ پنجاب پولیس کے اعلی افسران نے محکمے میں مسلسل غیر محکمہ جاتی مداخلت کے خلاف برملا اجتماعی تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ کہیں یہ پولیس والے بھی عدلِ جیلانی کی زنجیر نہ ہلا بیٹھیں۔ اور تو اور بینک تک کہہ رہے کہ بے روزگار نوجوانوں کے لئے سو ارب کی شریف قرضہ سکیم سر آنکھوں پر لیکن واپسی کی گارنٹی آپ دیں تو ہم قرضہ جاری کردیں یا پھر قرضہ فارم پر حلوائی کی دوکان اور دادا جی کی فاتحہ ہی لکھ دیں۔
اس تصویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ چھ ماہ گذرنے کے باوجود سرا ہاتھ آنا تو دور کی بات گڈ گورننس کے الجھے دھاگوں کے گولے کا حجم تک حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ اگرچہ ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ پورا ہے مگر کارِ سرکار کے ٹائر روزمرہ کے کیچڑ میں پھنسے پوری طاقت سے گھوم رہے ہیں۔ اور ڈرائیور سمجھ رہا ہے کہ گاڑی فل سپیڈ سے آگے بڑھ رہی ہے۔
Post a Comment