Islam banned in Angola, an African country افریقی ملک انگولا میں ۔۔اسلام پر ’پابندی۔ ملک میں مساجد کو بند کیا جا رہا ہے‘
افریقہ کے ملک انگولا میں مسلمان برادری نے الزام لگایا ہے کہ ملک میں اسلام پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
انگولا کے قوانین کے مطابق کسی بھی مذہبی برادری کو ملک کے 18 میں سے 12 صوبوں میں اپنی نمائندگی ظاہر کرنے اور کم از کم ایک لاکھ ارکان ہونے پر قانونی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔ تاہم ایک کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 90 ہزار ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین میں حال ہی میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مسلمانوں کی تنظیم آئی سی اے یعنی اسلامک کمیونٹی آف انگولا کا کہنا ہے کہ ملک میں مساجد کو بند کیا جا رہا ہے اور حجاب پہننے والی خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
انگولا کی ثقافت میں مداخلت"تنطیم کے مطابق حکومت نے سال 2010 میں مساجد کو بند کرنا شروع کیا جس میں صوبہ ہوامبو میں نذر آتش کی جانے والی مسجد بھی شامل ہے۔ اس واقعے کے اگلے ہی دن حکومت نے کہا کہ اس جگہ پر مسجد دوبارہ تعمیر نہیں کی جا سکتی ہے اور اسے بعد میں کسی اور جگہ بنایا جائے۔ حکومت نے یہ دلیل دی کہ مسجد انگولا کی ثقافت میں مداخلت اور عیسائی روایات کے خلاف ہے۔"آئی سی اے
آئی سی اے کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران آٹھ مساجد کو تباہ کیا جا چکا ہے جبکہ کسی بھی مسلمان کو عبادت کرنے پر انگولا پینل کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام کے تحت قصوروار ٹھہرائے جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
دوسری جانب حقوق انسانی کے کارکنوں نے انگولا میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم دی اوپن سوسائٹی’انشیوٹیو آف دی سدرن افریقہ‘ کے اہلکار الیاس اسحاق کے مطابق ’جو میں نے سنا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انگولا دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے اسلام پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ مکمل طور پر پاگل پن ہے۔‘
انگولا میں مسلمانوں کی آبادی
انگولا کے قوانین کے مطابق کسی بھی مذہبی برادری کو ملک کے 18 میں سے 12 صوبوں میں اپنی نمائندگی ظاہر کرنے اور کم از کم ایک لاکھ ارکان ہونے پر قانونی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔ تاہم ایک کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 90 ہزار ہے۔
کیتھولک عیسائی اکثریتی ملک انگولا میں حکام کے مطابق دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں اسلام پر پابندی کی خبریں مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور ملک میں کسی بھی عبادت گاہ کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔
حال ہی میں برطانیہ نے انگولا کو افریقہ میں اپنا سب سے خوشحال شراکت دار قرار دیا ہے اور دونوں ممالک اپنے تجارتی تعلقات کو تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ انگولا میں 34 سال سے برسراقتدار صدر ہوزے ایدواردو دوس سانتوس پر بدعنوانی اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی الزامات لگتے رہے ہیں۔
انگولا کے قوانین کے مطابق ملک کے 18 میں سے 12 صوبوں میں اپنی نمائندگی ظاہر کرنے اور کم از کم ایک لاکھ ارکان ہونے پر کسی بھی مذہبی برادری کو قانونی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے، جب کہ ایک کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 90 ہزار ہے۔
آئی سی اے کے مطابق انگولا میں اس وقت مساجد کی تعداد 78 ہے اور دارالحکومت لواندا کے علاوہ دیگر تمام علاقوں میں واقع مساجد کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ دارالحکومت میں بھی حکومت مساجد کو بند کرنا چاہتی تھی لیکن جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں جب یہ خبریں آئیں کہ حکومت ملک میں اسلام پر پابندی لگانا چاہتی ہے تو حکومت نے دارالحکومت میں مساجد کو بند کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
’اس وقت لواندا میں مساجد کھلی ہیں اور یہاں مسلمان نماز کے لیے جا رہے ہیں۔‘
تنطیم کے مطابق حکومت نے 2010 میں مساجد کو بند کرنا شروع کیا جس میں صوبہ ہوامبو میں نذر آتش کی جانے والی مسجد بھی شامل ہے۔ اس واقعے کے اگلے ہی دن حکومت نے کہا کہ اس جگہ پر مسجد دوبارہ تعمیر نہیں کی جا سکتی اور اسے بعد میں کسی اور جگہ بنایا جائے۔ حکومت نے یہ دلیل دی کہ مسجد انگولا کی ثقافت میں مداخلت اور عیسائی روایات کے خلاف ہے۔
چند روز قبل غزہ میں فلسطینیوں نے انگولا کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا
تاہم انگولا کی حکومت نے ملک میں اسلام پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کے الزامات کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’انگولا میں اس وقت اسلام کے خلاف کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے خلاف۔‘
ملک کی وزارتِ ثقافت میں مذہب امور کے ڈائریکٹر مینوئل فریندو کے مطابق ’ کوئی بھی ایسی سرکاری پالیسی نہیں ہے جس میں کسی بھی عبادت گاہ کو بند یا تباہ کیا جائے۔‘
امریکہ میں انگولا کے سفارت خانے کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جمہوریہ انگولا ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی، وہاں بہت سارے مذاہب ہیں اور مذہبی آزادی حاصل ہے، ہمارے ہاں کیتھولک، پروٹسٹینٹ، بدھ اور مسلمان آباد ہیں۔‘
إرسال تعليق