Two-thirds of women journalists face harassment and exploitation دو تہائی خواتین صحافی ہراس اور استحصال کا شکار


Two-thirds of women journalists face harassment and exploitation دو تہائی خواتین صحافی ہراس اور استحصال کا شکار
خواتین سے ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی صحافی خواتین اپنے فرائض کی انجام دہی میں خود کس کرب اور مشکل سے گزرتی ہیں اس کا اندازہ عالمی سطح پر کیے جانے والے ایک حالیہ سروے سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس کے مطابق صحافت کے شعبے سے وابستہ دو تہائی خواتین کو اپنے کام کے دوران تشدد خوف اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


مرد خود کو برتر سمجھتے ہیں اور کام کے دوران وہ خواتین صحافیوں پر اپنا دباؤ برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تاکہ خواتین پیشہ وارانہ طور پر خود کو ان سے بہتر نہ منوا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون صحافی کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو خوب ہوا دی جاتی ہے۔"
ام فروا
یہ سروے انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹیوٹ اور انٹرنیشنل ویمنز میڈیا فاونڈیشن کے
 اشتراک سے کیا گیا ہے۔ جس میں ایشیا، بحرالکاہل، شمالی امریکہ، یورپ لاطینی امریکہ اور افریقہ کی تقریبا نوسو خواتین صحافیوں نے حصہ لیا۔



سروے کے مطابق ان خواتین کو زیادہ تر اس تشدد کا سامنا کہیں باہر نہیں بلکہ اپنے دفتروں میں کام کرنے کے دوران کرنا پڑا اور اس تشدد میں زیادہ تر ان کے مرد افسران، سپروائزز اور ساتھی کارکن شامل رہے۔


انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹیوٹ کی ڈائریکٹر حینا سٹرام کہتی ہیں کہ ’جب ہم صحافیوں سے کام کے دوران تحفظ کے معاملات پر بات کرتے ہیں تو زیادہ تر ہمارے ذہن میں جنگ کے علاقوں قدرتی آفات اور ہنگامہ خیزی کا خیال ہوتا ہے۔ ہم اکثر دفتر میں موجود ماحول کے بارے میں سوچتے بھی نہیں کہ وہ خواتین کے لیے کس حد تک محفوظ ہے۔‘

لیکن سروے یہ بتاتا ہے کہ خواتین انھی لوگوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہوتی ہے جو کام کےدوران ان کی حفاظت کے ذمےدار ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر نہ تو تشدد اور ہراساں کیے جانے والے یہ واقعات رپورٹ ہوتے اور نہ ہی خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو سزا مل پاتی۔

سروے میں حصہ لینے والی صحافی خواتین میں سے بیس فیصد تو اپنے فرائض کے دوران جسمانی تشدد کا شکار بھی ہوچکی ہیں۔ جبکہ بڑی اکثریت کے مطابق اس طرح کے حادثوں کی صورت میں ان کے اداروں میں مدد کا کوئی نظام موجود نہیں۔ وہ خود یہ فیصلہ نہیں کر پاتیں کہ تشدد یا بدسلوکی کی صورت میں وہ کیا کریں۔

انٹرنیشنل ویمنز میڈیا فاونڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر الیزا لیز مینوز کہتی ہیں کہ ’بدقستمی سے کوئی بھی ایسا ادارہ موجود نہیں جو خواتین صحافیوں کو یہ راہنمائی فراہم کرے کہ وہ کس طرح خود کو تشدد سے محفوظ رکھ سکتی ہیں اور جب انھیں کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو انھیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا’۔


پاکستان میں خواتین کو دفاتر اور کام کی جگہ پر تحفظ دینے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی لیکن خواتین کو ان قوانین کے بارے میں آگہی نہیں۔ تاہم صحافت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں یہ تاثر قائم کرنا یقینا درست نہیں ہوگا۔

پاکستان میں ایک نجی نیوز چینل میں کام کرنے والی صحافی ام فروا کہتی ہیں ’پاکستان میں کالجز اور یونیورسٹیوں میں صحافت پڑھنے والی خواتین کی تعداد تو ہزاروں میں ہے لیکن عملی صحافت میں یہاں خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بہت سی خواتین اس شعبے کو اپناتی بھی ہیں لیکن پھر نامناسب حالات کار کے باعث جلد ہی کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہیں۔‘

پاکستان میں تو ایسی بھی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں تشدد اور ہراساں کیے جانے پر آواز اٹھانے والی خواتین کو نہ صرف اپنے ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ انھیں کسی دوسری جگہ بھی ملازمت نہیں مل سکی۔

دنیا بھر میں تنخواہوں کے معاملے میں بھی مرد صحافیوں کے مقابلے میں خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جبکہ فیصلہ سازی کی سطح تک خواتین کی رسائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔


ام فروا کہتی ہیں ’مرد خود کو برتر سمجھتے ہیں۔ اور کام کے دوران وہ خواتین صحافیوں پر اپنا دباؤ برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تاکہ خواتین پیشہ وارانہ طور پر خود کو ان سے بہتر نہ منوا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاتون صحافی کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو خوب ہوا دی جاتی ہے’۔

پاکستان میں سماجی رویے تو کسی بھی مقصدکے لیے گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں تاہم اس عالمی سروے کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ خاتون چاہے امریکہ یا یورپ میں رہتی ہوں یا پاکستان میں خود کو منوانے کے لیے اسے ہر لمحہ ہر جگہ ایک جنگ ہی لڑنا پڑتی ہے۔


اکتیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ فوزیہ شاہد کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کی قابلیت پر شک کر کے انہیں اہم خبروں سے دور رکھا جاتا ہے۔

’ملازمت میں ترقی اور اہم محکموں کے بارے میں رپورٹنگ کی بات ہے تو وہ خواتین کو نہیں دی جاتی جسے ہم استحصال قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ خواتین بھی ایسی رپورٹنگ کی اہلیت رکھتی ہیں‘

فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ خواتین کو ایک مخصوص وقت تک کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’گو کہ اب رجحان بدل رہا ہے لڑکیاں دیر رات تک باہر کام کر رہی ہیں لیکن یہ ایک عمومی مزاج ہے جو بدلا نہیں۔‘

انھوں نے شکایت کی کہ پاکستان میں صحافی خواتین یہاں کی صحافتی تنظیموں اور ان کے تحفظ کے لیے بنے اداروں کو شکایت نہیں کرتیں اس لیے ملک میں ایسے واقعات کا کوئی خاض ریکارڈ نہیں ہے۔

نوجوان صحافی نوشین یوسف کہتی ہیں کہ ان کے سات سالہ صحافتی کریئر میں انہیں ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ : ’پاکستان میں اب دور بدل رہا ہے بڑے اداروں میں ہراساں کیے جانے کے حوالے سے سخت پالیسیز ہیں۔ اگر کوئی اکا دکا کیسز سامنے آئے بھی ہیں تو انہیں سزا دی گئی ہے۔ کئی لوگوں نے سزا کے طور پر نوکریاں گنوائی ہیں۔‘

جب ہم صحافیوں سے کام کے دوران تحفظ کے معاملات پر بات کرتے ہیں تو زیادہ تر ہمارے ذہن میں جنگ کے علاقوں قدرتی آفات اور ہنگامہ خیزی کا خیال ہوتا ہے۔ ہم اکثر دفتر میں موجود ماحول کے بارے میں سوچتے بھی نہیں کہ وہ خواتین کے لیے کس حد تک محفوظ ہے۔"
حینا سٹرام
انھوں نے بتایا کہ صحافی خواتین کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے علاوہ معاشرے کے دیگر لوگوں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے والے خواتین کے بارے میں معاشرے میں موجود سوچ کی خرابی ہے۔

’یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے والی خواتین پر بات کیا جانا ایک عام بات ہے۔‘

Post a Comment

Previous Post Next Post