غزل
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنادے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنادے
یہ ذوقِ وفا کا مجھے تیرا نہ بنادے
یہ ترا ستم ہی تجھے میرا نہ بنادے
اے دیکھنے والو! مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
آزاد طلب اک ذرا ہشیار ہی رہنا
مجبور کہیں عشق کی دنیا نہ بنادے
میرے لبِ خاموش کو ہے پاس وفا کا
چاہے تو ہر اک لفظ کو افسانہ بنادے
آغاز کی دنیا ہے نہ انجام کی دنیا
اے شمع حقیقی مجھے پروانہ بنادے
بیتابِ پرستش ہے جبیں پُرز عقیدت
سجدوں سے کہیں نقشِ کفِ پا نہ بنادے
میں دل سے پپیہے تیری آواز کے صدقے
دو لفظوں میں مرا بھی اک افسانہ بنادے
او کافرِ الفت یہ تری نیم نگاہی
دنیا کو تماشا ہی تماشا نہ بنادے
کچھ مجھ سے نہ پوچھو مرا عالم ہی جُدا ہے
وہ کیا کہے جس کو کوئی دیوانہ بنادے
وہ کفر مجھے دے ترے ایمان کے صدقے
جو کعبہ کو بھی حاصل بت خانہ بنادے
یہ اس کا کرم ہے کہ مرے ہوش ہیں باقی
وہ چاہے تو اک آن میں دیوانہ بنادے
اے جذبِ دلی اشکوں میں کیوں رنگ نہیں ہے
افسانہ کے لفظوں کو بھی افسانہ بنادے
ساقی نگہ مست سے سو داغ دیئے جا
اس قلب کو پیمانہ بہ پیمانہ بنادے
ان آنکھوں میں مستی بھی ہے، جادو بھی، ادا بھی
ان آنکھوں سے کل دہر کو دیوانہ بنادے
میں ڈھونڈ رہا ہوں مری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنادے
بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدہء مستی
ہر ذرّے کو سنگِ درِ جانانہ بنادے
(بہزاد لکھنوی)
Post a Comment