’طالبان کے ترجمان نے چوہدری اسلم کو براہِ راست فون کر کے دھمکی دی تھی‘
کراچی پولیس نے چوہدری اسلم پر حملے کو ابتدائی تحقیقات میں خودکش حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دھماکے کے لیے اعلیٰ معیار کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
لیاری ایکسپریس وے پر جائے وقوع کے معائنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی ظفر عباس بخاری کا کہنا تھا کہ پولیس نے کچھ جسمانی اعضا تحویل میں لیے ہیں، جن کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے گا اور پولیس کے پاس موجود ریکارڈ سے اس کا تقابل کیا جائے گا تاکہ اصل ملزمان کا پتہ لگایا جا سکے۔
ظفر عباس بخاری کے مطابق پولیس کو ایک ہاتھ بھی ملا ہے جس کے فنگر پرنٹس کی شناخت رجسٹریشن کے قومی ادارے نادرا کی مدد سے کی جائے گی۔
انھوں نے اطلاع دی کہ پولیس نے حضرت بلال نامی ایک شخص کو حراست میں لیا ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس کی پیلی ٹیکسی واقعے میں استعمال کی گئی ہے۔
ان کا نا تو پنجاب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ چوہدری ہیں لیکن لوگ انہیں چوہدری اسلم کے نام سے ہی جانتے ہیں کیونکہ ان کا لباس اور چال ڈھال چوہدریوں والی ہے۔
چوہدری اسلم پر حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی ہے۔ تنظیم نے اس حملے کو اپنے کمانڈر عارف عرف ڈاکٹر مقبول اور عبدالرحمان کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا ہے، جنھیں سی آئی ڈی پولیس نےگذشتہ سال نومبر میں چوہدری اسلم کی سربراہی میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ڈی آئی جی ظفر عباس نے بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے چوہدری اسلم کو براہِ راست فون کر کے دھمکی دی تھی اور ان کی جانب سے پہنچائے جانے والے نقصان پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اسی دوران دونوں میں تلخ کامی بھی ہوئی لیکن چوہدری اسلم اپنے عزم پر برقرار رہے تھے۔
چوہدری اسلم کو طالبان کے ترجمان نے براہِ راست فون کر کے دھمکی دی تھی
ڈی آئی جی سی آئی ڈی کا کہنا تھا کہ چوہدری اسلم کو سکیورٹی فراہم کی گئی تھی، ان کی گاڑی بلٹ پروف تھی لیکن طالبان کے پاس ہر طرح چیز کا توڑ ہے، لہٰذا سکیورٹی کی کمزوری کو ذمہ دار قرار دینا ٹھیک نہیں۔
چوہدری اسلم پر حملے کی تحقیقات کے لیے آئی جی سندھ کی سربراہی میں تین کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ راجہ عمر کا کہنا ہے کہ بمبار گاڑی میں سوار تھا، جس نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی چوہدری اسلم کی گاڑی سے ٹکرا دی۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے لیاری ایکسپریس وے میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
چوہدری اسلم کی نمازِ جنازہ جمعے کی شام پولیس لائن گراؤنڈ میں ادا کی جائے گی، جس کے بعد ان کی کراچی میں ہی تدفین ہوگی۔
یاد رہے کہ جمعرات کی شام ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کے قافلے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ دفتر جا رہے تھے۔ عیسیٰ نگری کے مقام پر بم حملے میں چوہدری اسلم سمیت تین اہل کار ہلاک ہوگئے۔
ڈی آئی جی ظفر عباس بخاری کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم پر یہ پانچواں حملہ تھا، جس میں ملزمان کامیاب ہوگئے۔ ستمبر 2011 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ان کی رہائش گاہ پر بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ادھر پاکستان کے ایوان بالا میں ایک مشترکہ قرار داد کے ذریعے چوہدری اسلم کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔
چوہدری اسلم کا نام گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی میں طالبان اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں آتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لیاری میں جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے تھے۔
جمعرات کی صبح ہی انھوں نے ذرائع ابلاغ کو ناردرن بائی پاس کے قریب منگھو پیر کے علاقے میں پولیس مقابلے میں تحریک طالبان کے تین مشتبہ کارکنوں کو ہلاک کرنے کی اطلاع دی تھی۔
Post a Comment