From learning centers to dancing places - درس گاہوں سے رقص گاہوں تک
جب کوئی معاشرہ تہذیب و ثقافت اور میڈیا نسل نو کے اساسی تصور یا فکری ورثے کے فروغ کی بجائے عشق و محبت کے کردار اور بے راہ روی کی جانب رہنمائی کرے، تو پھر اس ملک و قوم کو اپنے تحفظ و بقاء کے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں ’’ہم نصابی‘‘ لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں ہم و غیر نصابی پروگراموں اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی ہیں۔ سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر جو وباء پھیل رہی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمد ن کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ’’ٹاپ سٹارز‘‘ ابھر رہے ہیں۔
تعلیمی اوقات کے دوران کسی بڑے پارک، یونیورسٹی کے سرسبز و شاداب لان یا کالج کے کوری ڈور میں بیٹھے طلبہ وطالبات کا ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد کی رومانوی داستانوں کو دہرانا، ساتھ جینے مرنے کا سبق پڑھنا تو ایک الگ موضوع ہے، لیکن سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لوگوںکے سامنے سٹیج پر طلبہ کا رقص تعلیم کے مقاصد کی صریحاً نفی کرتا ہے جو قابل مذمت بھی ہے اور بے راہروی کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ بھی۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی اس پرفارمنس سے محظوظ اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی ’’تربیت‘‘ میں کوئی ’’کمی‘‘ نہیں رہ گئی اور انہوں نے اولاد کو ’’پالش‘‘ کرکے اپنے حصے کا حق ادا کردیا۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں میوزیکل کنسرٹ، ڈانس پارٹیز و مقابلہ جات، فیشن شوز، کیٹ واک، فن فیئرز، سالانہ تقریبات اور اسی طرز کے دیگر پروگرامز کے ذریعے ہماری تہذیبی و اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
یہ ملک دس لاکھ سے زائد قربانیاں دے کر اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ اسے یوں روشن خیالی، معتدل مزاجی، اور مغرب کی غلیظ عادات کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب بگاڑ غالب آجائے تو معاشرہ،قوم، مستقبل، غرض ہرچیز خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ آج تعلیمی اداروں کی حالت زار یہ ہے کہ جن درس گاہوں کو محب وطن ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان تیار کرنے چاہیئں تھے، وہ لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ہیروز پیدا کررہی ہیں۔ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت درس گاہوں کو رقص گاہوں میں تبدیل کرنے کے لئے ناچ گانے کی ثقافت کو ملک کے ایک ایک کالج اور ایک ایک سکول پر مسلط کیا جارہا ہے۔ آج بدقسمتی سے ہمیں جو تعلیم دی جارہی ہے اور جو تربیت ہورہی ہے، وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے۔ آج ہمارا نظام تعلیم کانٹے بورہا ہے، تعلیم منفی ہو تو دامن خالی ہی رہتے ہیں…جس تعلیم کی کوئی سمت نہ ہو اور جو تعلیم کوئی مقصد ہی نہ رکھتی ہو وہ فرد کو کیا سنوارے گی اور معاشرے کو کیا دے گی؟…بحیثیت قوم ہم وہ نہیں رہے جو ہمیں ہونا چاہئے تھا۔ ہم اپنی نفی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، ہماری نمائندگی مسخ ہو چکی ہے جبکہ ہماری ترجمانی اجنبی زبانیں کررہی ہیں۔آج ہماری تصویر ہماری تاریخ کا منہ چڑا رہی ہے اور ہم تماشائی بن کر اپنی اقدار کا قتل اور اپنی تہذیب کی تذلیل دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اپنی ہی صدیوں سے محروم کررہے ہیں۔آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا کردار ماضی جیسا نہیں رہا۔ ہماری توقیر، تکریم اور تحفظ ہمارے تشخص میں ہے لیکن ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی بننے والے خود کو بھی کھورہے ہیں اور اپنے گھر (پاکستان) کو بھی۔ آج پاکستان کی نوجوان نسل جس تیزی سے بے راہ روی کے سمندر میں ڈوب رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اور ہم اسی پر خوش ہیں کہ ہم ’’ترقی‘‘ کی منازل بہت ’’ تیزی‘‘ سے طے کررہے ہیں۔
پاکستان میں جگہ جگہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے، مگر اخلاقی لحاظ سے معاشرہ پستی کی جانب لڑھک رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ تعلیمی ادارے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کررہے۔ آج ہمارے دنیاوی تعلیم کے یہ ادارے جدید تحقیقات و ایجادات کے بجائے مغربی تہذیب سیکھنے سکھانے کے مستقل اڈے بن چکے ہیں۔ جہاں صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی طرف محنت اور توجہ کم اور مغربیت سیکھنے کا ذوق و شوق زیادہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم پر مسلط تعلیمی نظام نے ہمارے نوجوانوں کی اسلامی سوچ کو زیادہ پروان نہیں چڑھنے دیا، بلکہ نام نہاد ترقی کی آڑ میں انہیں آزاد اور آوارہ ماحول کی بھینٹ چڑھایا اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے ہماری ثقافت سے نتھی کیا جارہا ہے۔ بدقسمی سے پاکستانی قوم نے اس ولائتی ماحول کو امارت کے اظہار، تہذیب، فیشن، فرینڈ شپ، ماڈرن ازم، اور انڈر سٹینڈنگ کا نام دے کر قبول کرلیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز شدت سے پیدا ہونے والی اس روش کو اگر بدلا نہ گیا تو آنے والا وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں کی تباہی کا پیغام لے کر آئے گا جو ہماری اسلامی ثقافت پر نہ مٹنے والے دھبے چھوڑ جائے گی۔
بھارتی گانوں پر رقص کا یہ سلسلہ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری شادی بیاہ کی رسومات، تفریحی پروگرامز اور دیگر تقریبات تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ اور مائوں بہنوں کی ناموس سے بے نیاز اسے بدنام کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ’’پروین بڑی نمکین‘‘ والے گانے نے بہت دھوم مچا رکھی تھی جس کی وجہ سے ’’پروین‘‘ نامی لڑکیوں بالخصوص طالبات کوشدید کوفت اور ذہنی اذیت کا سامناتھا۔ ان کا گھر سے نکلنا عذاب بن چکا تھا۔ پھر عدلیہ کے سوموٹو ایکشن کے بعد اس پر پابندی لگائی گئی تو انہیں اس اذیت سے نجات ملی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عدلیہ تعلیمی اداروں کو ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے واضح ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ہدایات جاری کریں۔ نیز تعلیمی ادارے بھی ایسی سرگرمیوں کے انعقاد سے گریز کریں اور اپنے قیام کے مقاصد کو فراموش مت کریں، اپنی حقیقی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کریں اور ماضی کی طرح اب بھی دیانتداری کے ساتھ اپنا کردار نبھائیں۔ تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ تفریح تو اس کا بہت چھوٹا حصہ ہے، لہذا ہمیں طلبہ کی تعلیم وتربیت میں اقدار اور اخلاقیات کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
Post a Comment