Why are we so far behind? by Ashraf Qureshi - ہم اب تک کیوں پیچھے ہیں ؟

Why are we so far behind? by Ashraf Qureshi - ہم اب تک کیوں پیچھے ہیں ؟

ایک زمانہ تھا جب اطلاعات وابلاغیات میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی، دنیا میں ہونے والی ترقی کی خبر ہمارے ملکوں تک پہنچتے پہنچتے اس قدر پرانی، دوراز کار اور متروک ہوچکی ہوتی تھی کہ جہاں سے اس کا آغا ہوا ہوتا تھا، وہاں اس کے خلاف تحریک چل رہی ہوتی تھی یا اسے ترک کیا جا چکا ہوتا تھا۔ مَیں جس بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں یہ سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ پچاس ساٹھ سال سے زائد عرصے سے اس میں کچھ پاکستانی خاندان رہائش رکھتے ہیں۔ اس میں ایلیویٹر (لفٹ) لگی ہوئی ہے۔ یہاں تین منازل سے بلند عمارت میں ایلیویٹر لگانا لازمی ہے۔ ہمارے ہاں اب بھی اس کا استعمال نہیں ہے۔ جن عمارات یا دفتر میں لفٹ لگی ہے وہاں لفٹ چلانے کے لئے ایک آپریٹر ملازم رکھا گیا ہے ،جس کا کام آپ کے مطلوبہ فلور تک جانے کے لئے بٹن دبانا ہوتا ہے۔ گویا بٹن دبانا بھی کوئی ایسی ٹیکنیکل مہارت ہے جس کے لئے ایک آپریٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ حکیم سعید مرحوم کہا کرتے تھے کہ مغرب میں جو دوائیں نقصان دہ قرار دے کر بند کردی جاتی ہیں، وہ ہمارے جیسے ملکوں کوبڑی تعداد میں عطا کردی جاتی ہیں اور ہم ان سے اپنی صحت کا بیڑا غرق کرتے رہتے ہیں۔ اب میڈیا کا دور ہی نہیں دور دورہ بھی ہے، لیکن اب بھی ہمارا یہی حال ہے کہ جو چیز مغرب اور امریکہ میں متروک ہوجاتی ہے ،وہ ہمارے ہاں ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہوتی ہے، اس کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہیں۔

میکڈانلڈ، برگر کنگ کے کھانے اور کولا مشروبات (جنہیں یہاں سوڈا کے عام نام سے پکارا جاتا ہے) یہاں پر ”گند“ قرار پاچکے ہیں۔ انہیں ”جنک فوڈ“ کہا جاتا ہے، موٹاپے اور دوسری کئی بیماریوں کا سبب گردانا جاتا ہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ پاکستان میں ان کی زبردست مانگ ہے۔ دافع عفونت ادویات (Antibiotic) کے استعمال کو یہاں بے حد خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ حاملہ عورتوں اور بچوں کو تو خاص طور پر ان سے بچایا جاتا ہے۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ عام نزلہ زکام حتیٰ کہ ”فلو“ میں بھی یہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ الٹا آپ کے نظام انہضام میں موجود قدرتی بیکٹیریا کو تباہ کرکے نقصان پہنچاتی ہیں۔ حاملہ خواتین اور بچوں کو تو یہاں اسپرین تک نہیں دی جاسکتی۔ لیکن اب اینٹی بائیوٹک کے سلسلے میں ایک اور تحریک زوروں پر ہے، کیونکہ یہ ادویات اکثر فارم کے جانوروں، گایوں، بھینسوں گوشت کے لئے استعمال ہونے والے دوسرے حرام وحلال جانوروں اور مرغیوں کو بھی بے تحاشا کھلائی جاتی ہیں، جن کے اثرات ان کے گوشت میں موجود ہوتے ہیں اور اس گوشت کو کھانے سے یہ اثرات کھانے والوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے فارم ہاﺅسز پر ان اینٹی بائیو ٹک ادویات کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی مہم چل رہی ہے۔

کھانے پینے کی اشیاءپر اس میں شامل غذائی اجزاءکی تفصیل لکھنا ضروری ہے۔ پاکستان سے آنے والی سرخ مرچ اور ہلدی پر بھی یہ تفصیل لکھی ملتی ہے۔ پہلے پہل اس میں کیلوریز کو اہمیت دی جاتی تھی یا پھر چکنائی کو دیکھا جاتا تھا، اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ صحت مند تیل مثلاً زیتون کا تیل (جس کی قرآن عظیم میں بھی تعریف آئی ہے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذا تھی) اور ناریل کا تیل (اس کا تیل بھی اگرچہ اسے خوردنی تیل کی بجائے دوا کے طور پر کھایایا کیپسولز میں استعمال کیا جاتا ہے) مفید ہی نہیں دل کی بیماریوں کے لئے علاج کی حیثیت رکھتا اور موٹاپے کر کم کرتا ہے۔ اصل ضرر رساں کاربوہائیڈریٹس ہیں جو معدے میں جاکر شوگر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایک چمچ چینی اور ایک چمچ میدہ یا چاول یکساں ضرر رساں ہیں۔ اس لئے اب کھانے پینے کی اشیاءپر کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بھی لکھی ہوتی ہے۔ ہمارے لوگ جو پھلوں اور جوس کو صحت مند غذا سمجھتے ہیں، یہ شوگر کے مریضوں کے لئے زہر قاتل ہیں۔ بالخصوص ڈبوں میں بند جوس، جنہیں کیمیکل ڈال کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ڈبہ بند ہر غذا نقصان دہ ہے۔ خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا دودھ دہی ہو۔ اسے یہاں Processed Food کہا جاتا ہے اور اسے سخت ضرر رساں سمجھا جاتا ہے،اب یہ صارف کی صوابدید ہے کہ وہ استعمال کرے یا ترک کرے۔

مَیں نے ایک بار جینیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی فصلوں کے بارے میں لکھا تھا۔ جنہیں عرف عام میں جی ایم او Genetic Modified Organism کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ اس سے اجناس کے دوسرے جینز پر تعامل کی وجہ سے غذائی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ مکئی وہ پہلی فصل ہے جس پر جینیاتی تبدیلی کے تجربات کئے گئے اور تجربات سے سامنے آیا ہے کہ ایسی مکئی کھانے والی حاملہ عورتوں اور ان کے بچوں تک اس کے اثرات منتقل ہوتے ہیں۔ ایسے جینیاتی بیج چھ کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ (1) بی اے ایس ایف، (2) بائر، (3) ڈاﺅ ایگرو سائنسز (4) ڈی پونٹ (جسے ڈیو پانٹ بھی پڑھتے ہیں لیکن یہ فرانسیسی لفظ ہے، اس لئے اسے ڈیوپاں پڑھنا زیادہ صحیح ہے)، (5) مون سانتو....یہ اس ضمن میں زیادہ شہرت بھی رکھتی ہے اور اسے زیادہ مخالفت کا بھی سامنا ہے، اس کی اجارہ داری بھی سب سے بڑھ کر ہے۔ (6) سینگاتو۔

مون سانتو کو 2013ءمیں ورلڈ دوڈ پرائز ملا ہے، یہ انعام اس کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ اور چیف ٹیکنالوجی آفیسر کو دیا گیا، لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ انعام خریدا گیا ہے۔ مون سانتو نے 2011ءمیں ورلڈ فوڈ پرائز کو تین لاکھ اسی ہزار ڈالر عطیہ دئیے تھے اور ورلڈ فوڈ پرائز کے ادارے ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کو اس کے ہال اور میوزیم کی مرمت کے نام پر 2008ءمیں پانچ ملین ڈالر دئیے تھے۔ ادویات تیار کرنے والی کارپوریٹ کمپنیاں اسی طرح یونیورسٹیوں اور کئی دوسرے اداروں سے اپنے حق میں تحقیقات کے نتائج حاصل کرتی ہیں۔

اب تک دنیا کے سولہ ممالک میں جی ایم او پیداوار پر جزوی یا کلی پابندی لگ چکی ہے۔ (1) مکئی (2) سویا بین (3) کپاس اور کپاس کے بیجوں سے حاصل ہونے والا تیل (4) پپیتا (5) چاول (6) کینولا (تیل والا بیج) (7) آلو (8) ٹماٹر (9) دودھ دہی اور اس کی مزید مصنوعات اور (10) مٹر وہ فصلیں ہیں، جن کی جین تبدیل کی جارہی ہے۔ یورپین یونین، جاپان، جنوبی کوریا اور فلپائن نے امریکی چاول کی خرید بند کردی ہے۔ بلغاریہ اور روس بھی یہ چاول خریدنے پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔ جرمنی نے تھائی لینڈ سے ڈبہ بند پھل، سلاد، جس میں پپیتا شامل ہو، لینا بند کردیا ہے۔ یونان اور نیدر لینڈ نے تھائی لینڈ سے ایسی سارڈین مچھلی، جو سویا بین آئل میں محفوظ کی گئی ہو لینا بند کردی ہے۔ اسی لئے اب وہ ملک جو جی ایم او کی طرف راغب ہورہے تھے، انہوں نے بھی کلی یا جزوی پابندی لگادی ہے۔ جب جی ایم او انجینئرنگ کمپنیوں نے دیکھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ان کے پاﺅں نہیں جم رہے تو انہوں نے ترقی پذیر ممالک کا رخ کیا۔ بھارت میں اس کا خوب چرچا رہا، لیکن پھر 2010ءمیں بھارت میں بینگن کی فصل کے عین کاشت کے موقع پر پابندی لگادی گئی۔

جی ایم او کاٹن کے لئے بینکوں کے قرضوں سے بیج حاصل کیا گیاتھا، فصلیں ناکام ہوگئیں اور ”ڈیلی میل“ کی اطلاع کے مطابق اس قرضے کے جال میں پھنس جانے کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد بھارتی کسان خود کشی کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی ڈاکو منٹری فلم ”پیپلی“ دیکھی جاسکتی ہے۔ خود امریکہ میں کیلی فورنیا کی میندوینسو، ٹرنیٹی اور مارین کاﺅنٹی میں جی ایم او فصلوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ سان ہوان اور واشنگٹن کاﺅنٹی میں کاشت، اشتہار بازی اور پراپیگنڈہ بھی بند کرادیا گیا ہے۔ جی ایم او کے خلاف امریکہ بھر میں جو تحریک چل رہی ہے، وہ اس پر پابندی لگوانے سے پہلے یہ چاہتے ہیں کہ جو اجناس جی ایم او ہوں یا جس کھانے پینے کی چیز میں جی ایم او اجزا شامل ہوں، اس کے لیبل پر یہ واضح طور پر لکھا ہو، کیونکہ صارفین کو یہ حق حاصل ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کیا خرید رہے ہیں اور کیا کھارہے ہیں؟ اگرکوئی جانتے بوجھتے ہوئے زہر کھانا چاہے تو یہ اس کی مرضی ہے، لیکن جی ایم او اجناس یا اجزاءاستعمال کرنے والے ادارے اس پر بھی راضی نہیں ہورہے، انہیں معلوم ہے کہ لیبل پر جی ایم او دیکھ کر انہیں کوئی نہیں خریدے گا۔

میں نے سنا ہے پاکستان میں ہمارے وزیر زراعت جی ایم او کو پاکستان میں رائج کرنے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ گویا دنیا جس چیز کو غلط اور مضر صحت قرار دے کر ترک کردے گی، ہم اسے خوشی خوشی قبول کرلیں گے یا پھر مونسانتونے کوئی عطیہ دے دیا ہے؟

بشکریہ روزنامہ پاکستان


Post a Comment

Previous Post Next Post