کبھی میٹھے اور کبھی کڑوے سچ بولنے والی تاریخ کے اوراق الٹیں تو بہت سے شرفا و اکابرین ملت کے بارے تلخ حقائق اور انکے اصل گھناؤنے چہرے سامنے آ جاتے ہیں۔ خادمین حرمین شریفین ہونے کے ناطے عزت و احترام کے حقدار ٹھہرنے والے امریکی حلیف سعودی شہنشاہوں کی تاریخ کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے طالب علم ان حقائق سے ضرور واقف ہوں گے کہ سعودی مملکت کے بانی عبد العزیز بن سعود سے قبل یہ سعود خاندان نجد کے علاقے کا حکمران تھا۔ اس دوران ان کا سلطنت عثمانیہ اور مکہ کے راشدی حکمرانوں سے بارہا ٹکراؤ ہوتا رہتا رہتا تھا۔ یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ یا حجاز کی حکومتوں کیخلاف ہمیشہ انکی مدد کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے سب سے عیار دشمن برطانوی گورے ہی تھے۔ صحرائی ڈکیٹوں کی فوج کے زور پر سفاک جنگجو مانا جانے والا نجد کا سعود خاندان انیسویں صدی کے آغاز میں جزیرہ نمائے عرب کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا۔ لیکن 1818ء میں ایک عظیم مصری مجاہد حکمران محمد علی پاشا نے آل سعود کو عبرت ناک شکست دیکر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ جس کے اگلے اسی برس تک اس خاندان کے افراد عرب کے مختلف جزائر میں پرشان حال رہے۔ پھر بیسویں صدی کی شروعات میں اس خاندان کے عبدالعزیز ابن سعود نے اپنے صرف 25 ساتھیوں کی مدد سے پہلے اس وقت کے نجد اور موجودہ سعودی عرب کے صدر مقام ریاض اور بعد میں پورے نجد پر قبضہ کر لیا۔ 1913ء میں اسی ابن سعود نے برطانوی گوروں کی مدد سے ترکوں کی عثمانی خلافت کے زیر اثر خلیج فارس کے ساحلی صوبے الحساء پر قبضہ کیا۔ اسی دوران 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو شاہ ابن سعود نے برطانیہ سے دوستانہ تعلقات کو مذید مظبوط کیا اورانگریزوں کا مکمل ساتھ دیتے ہوئے برادر مسلمان ترکوں کے خلاف بھرپور جنگی کاروائیاں کیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کی شان خلافت عثمانیہ کے خاتمے کیلئے انگریزوں کی معاونت میں اس سعودی شاہی خاندان کا اسلام دشمن کردار اسلامی تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے جو تا قیامت امت مسلمہ کو شرمسار کرتا رہے گا ۔ قصہ مختصر پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، انگریزوں سے ملکر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرنے والےشریف حسین مکہ نے خلیفہ بننے کا اعلان کیا تو گوروں کے دوسرے بغل بچے ابن سعود نے برطانوی مدد کے ساتھ حجاز پر خوفناک حملہ کرکے صرف چار ماہ میں پورے حجاز پر قبضہ کرلیا۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جونہی ابن سعود کی فوجیں اپنے گھوڑوں اور جوتوں سمیت خانہ کعبہ کی حدود کے اندر داخل ہوئیں، نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے خادم حرمین شریفین شریف حسین مکہ نے امت المسلمین کے اتحاد و عظمت کی نشان خلافت عثمانیہ کا باغی و غدار ہونے کے باوجود حرم کعبہ کے احترام میں بنا گولی چلائے یہ کہہ کر کعبۃ اللہ کی کنجیاں ابن سعود کے سپاہوں کے حوالے کر دیں تھیں کہ یہ مقدس مقام امن ہے اور یہاں جنگ و جدل اور قتل و غارت ایک مسلمان پر سدا حرام ٹھہری ہے۔ اور یوں اپنے گھوڑوں اور اسلحہ سمیت خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے والی عرب کے صحرائی ڈکیٹوں کی سفاک فوجوں کے عظیم سپہ سالار ابن سعود نے 8 جنوری 1926ء کو اس مملکت حجاز کا بادشاہ بننے کا اعلان کردیا جو آج سعودی عرب کہلاتی ہے۔ سب سے پہلے جس اسلام دشمن ملک نے ابن سعود کی بادشاہت کو تسلیم کیا وہ اسرائیل کے قیام کا مرکزی کردار قاتلِ مسلمین، دہریوں کا سرپرست روس تھا۔ عیار برطانیہ نے اپنے مفادات اور مطالبات منوانے کیئے قدرے تاخیر سے کام لیا اورپھر بالآخر معاہدہ جدہ کے بعد ابن سعود کی بادشاہت تسلیم کر لی ۔ یوں اپنے زوال کے ایک صدی بعد اسلام کے بدترین دشمن برطانوی سامراج کی مدد سے ایک بار پھر پوری قوت سے ابھرنے والی سعودی حکومت آج خطہء عرب کی سب سے بڑی طاقت بن چکی ہے
آج عالم اسلام اس خبر پر آگ بگولہ ہے کہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے مصر کی اسلام پسند منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا کرمصری لبرل فاشسٹ عوام اور صیہونیوں کے منظور نظر ایک عیسائی شخص کو اسلامی ریاست کا سربراہ بنانے والی مصری فوج کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ مجھے اس خبر پر انتہائی افسوس تو ہے لیکن تعجب اس لئے نہیں کہ سعودی حکمرانوں کا وطیرہ ہے کہ یہ تو روز اول سے ہی حصول اقتدار یا طوالت اقتدار کیلئے اسلام دشمن گوروں اور شرپسند سامراج کے پروردا یا حلیف رہے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے اگر اپنے بیان میں یہ کہا ہے سعودی عرب مصری دہشتگردوں کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کرتا ہے توشاید ان کو مساجد اور بازاروں میں ایک منتخب اسلامی حکومت کی جبری بساط لپیٹنے کیخلاف پر امن احتجاج کرنے والا ہر مرد و زن ہی نہیں ہر معصوم بچہ بھی اوسامہ بن لادن نظر آتا ہے۔ شاہ عبداللہ نے یہ مضحکہ خیز بیان بھی دیا ہے کہ مصر کے استحکام کو منافرت پھیلانے والے نشانہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ کہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح تمام عالم پر عیاں ہے کہ امریکی غلام مصری فوج کی مدد کیلئے مصر میں شراب کی فروخت اور قحبہ خانوں کے آزادانہ کاروبار کے داعی روشن خیال سیکولر بھی سرعام جدید اسلحہ لیکر فاشسٹ فوج کی معاونت میں نہتے شہریوں پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ سعودی شاہ نے خبردار کیا ہے کہ جو بھی مصر کے داخلی امور میں مداخلت کریگا، وہ دراصل بغاوت کو ہوا دے گا۔
اب ملوکیت کے علمبردار شہنشاہ کو یہ بات کون سمجھائے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت تو فاشسٹ لبرلسٹ کے کندھوں پر سوار اسی برطانوی سامراج کی غلام مصری فوج نے کی ہے جو برطانوی سامراج امت مسلمہ کی آخری خلافت کا خاتمہ کرنے میں ان کے آبا و اجداد صحرائی قذاقوں کا مددگار و حلیف تھا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اورمتحدہ عرب ممالک وہ دو مسلم ممالک ہیں جنہوں نے مصر میں سیکولر قوتوں اور مغربی ایما پر ہونے والی فوجی مداخلت کی کھلی حمایت کا اعلان کر کے اربوں ڈالرز کی امداد اور مذید فوجی امداد دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ عجیب نہیں از حد منافقانہ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف سعودی شہنشاہ ملک شام میں حکومت کی طرف سے باغیوں کیخلاف اٹھائے جانیوالے ظالمانہ اقدامات کی مخالفت اور شامی ریاست کیخلاف لڑنے والوں کو اسلامی مجاہد قرار دیکر ان کی حمایت کر رہا ہے جبکہ مصر میں وہ اسلامی ریاست کی باغی اور مسلمان عسام کا سفاک رین قتل عام کرنے والی سیکولر فوج کی کھلی حمایت کے ساتھ ساتھ عوام کو ٹینکوں تلے روندنے والوں کو اربوں ڈالر کی مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔ سعودی شاہوں کی اس تکلیف دہ پالیسی پر تعجب کرنے والے یاد رکھیں کہ یہی وہی سعودی حکمران ہیں جو ایک طرف صحابہ اکرام رضوان اللہ اور محترم و معزز اہل بیت کے مزارات مقدسہ کو غیر شرعی قرار دیکر مسمار کرتے ہیں اور دوسری طرف قاتلان مسلم کافروں اور یہودیوں کے سرپرست سامراجی و مغربی حکمرانوں کو گارڈ آف آنر اور سرکاری اعزازات ہی نہیں جپھیاں ڈال کر بوسے بھی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملوکیت کے علمبردار سعودی شاہ اپنے ہمسائے میں کسی بھی عرب جمہوری حکومت کو اس لئے بھی پروان چڑھے نہیں دیکھنا چاہتے کہ وہ اسلامی جمہوری حکومت مستقبل میں سعودی عرب میں بھی جمہوریت پسند قوتوں کیلئے مددگار ہو سکتی ہے ۔ خطہ ء عرب باخصوص اپنے ہمسائے ملک مصر میں کسی جمہوری حکومت کا قیام نسل در نسل شہنشاہت کے خواہاں سعودی حکمران اپنی شہنشاہیت کیلئے دراصل موت کا پیغام سمجھتے ہیں۔ سعودی بادشاہ سیکولر خیال عوام اور فاشسٹ مصری ڈکٹیٹر قوتوں کی حمایت ہی اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ مصر میں ایک سیکولر اور لادین گروہ کی ایسی حکومت تو برداشت کر سکتے ہیں جو ان کے سامراجی سرپرست امریکہ اور ازلی مددگار برطانیہ کی کٹھ پتلی اور پروردا ہو لیکن اسلام کی نشاط ثانیہ کے داعی اخوان المسلمین کی اسلامی جمہوری حکومت کو وہ اپنے اقتدار اور سیاسی مستقبل کیلئے ایک دائمی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق اخوان المسلون کا اسلام پسند جمہوری طرز حکومت سعودیہ کے جمہوریت پسند طبقوں یا سعودی نظام ملوکیت کے باغی عناصر کیلئے ممکنہ فکری تحریک کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اے خادم حرمین محمد سے وفا کر
اس ننگِ حرم شاہی سے بہترہےگدائی
اس ننگِ حرم شاہی سے بہترہےگدائی
قرآن و شریعت کے واضع احکامات کو نظر انداز کر کے اسلام دشمن یہود و نصاری سے دوستیاں رکھنے اور سامراجی قوتوں سےعشق کی پینگیں بڑھانے والے سعودی شہنشاہوں کے یہ قابل مذمت بیانات و اقدامات پاکستان میں ان تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں جو مصر میں جاری فوج کشی اورعوامی قتل عام پر سیخ پا اور منتخب جمہوری قوت اخوان المسلمون کے زبردست حامی تو ہیں لیکن نا عاقبت اندیش سعودی شہنشاہوں اور عیاش عرب شیوخ کا نام لیکر ان کے اسلام دشمن اقدامات کیخلاف آواز بلند کرتے ہوئے مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہوں سے والہانہ محبت کرنے والے یا انہیں اسلام کا خدمت گار و وفادار سمجھنے والے یاد رکھیں کہ جیسے محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ویسے ہی حصول اقتدار اور طوالت اقتدار کیلئے کسی سیاست دان یا ملوکی بادشاہ کی سیاسی حکمت عملی کسی مذہب اور فلسفے کی تابع نہیں ہوتی ۔ لہذا کسی بھی سیکولر یا غیر مسلم ملک کی طرح سعودی شہنشاہوں کی سیاسی اور خارجہ پالیسی کسی مذہبی عقیدے، اخلاقی ضابطے یا انسانی فلسفے کی پابند نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ملوکی نظام کے مفادات کے تابع ہے۔ لہذا فلسطین میں مسلمان یہودی بھیڑوں کی درندگی کا شکار ہوں،مصر میں مساجد کو آگ لگا کر نمازوں کو زندہ جلا دیا جائے یا امریکی کٹھ پتلی سیکولر فوج کے ٹینکوں تلے نہتے معصوم “دہشت گرد” عوام روندے جائیں اس سے سونے کے انبار تلے دب کر ناکارہ ہوئے ہوس اقتدار کا شکار شاہی دماغوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا مغربی غلام میڈیا اور ہندوآتہ غلام پریس ملالائی برانڈ ڈراموں کی کوریج تو کرتا ہے مگر دل دہلا دینے والے انسانیت سوز مظالم اور سانحاتِ ملت پر بے حس مسلم حکمرانوں کی طرح خاموش ہے ۔۔۔۔ مگرکوئی حق گو اس قتلِ مسلم پر کبھی خاموش نہیں رہ سکتا سو آئیے اخوان المسلمون اور مصر کے جری مسلم عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیلئے میرے ساتھ آپ بھی کہیے ۔۔۔۔۔
للکارہ ہے فرعونوں کو مقتل میں ہمیں نے
میدان ہو کربل کا یا ہوں مصر کے بازار
میدان ہو کربل کا یا ہوں مصر کے بازار
Post a Comment