خوش ہوں کہ تیرے غم کا سہارا مجھے ملا
ٹوٹا جو آسمان، ستارہ مجھے ملا
کچھ لوگ ساری عمر ہی محرومِ غم رہے
اک خوابِ عشق تھا جو دوبارہ مجھے ملا
پھر شامِ زندگی کے اُسی موڑ پر ہوں میں
جس شام، التفات تمہارا مجھے ملا
گردش میں لا کے پاؤں کے نیچے زمین کو
اک دور کے سفر کا اشارہ مجھے ملا
اِس ہجر میں شریک تھا تُو بھی مرا تو پھر
کیسے ہوا کہ سارے کا سارا مجھے ملا
ہر اٹھتی موج کرنے لگی تھی زمیں سے دور
یوں ، آسماں کا ایک کنارہ مجھے ملا
ترجیح تیری اور سہی اب مگر وہ خواب
سرمایۂ حیات ہمارا، مجھے ملا
جلنے لگی تھیں مشعلیں خیموں کے آس پاس
پھر کیسے کوچ کا وہ اشارہ مجھے ملا
پھر رات کے دیار تلک ساتھ ہم چلے
رستے میں جب وہ شام کا تارا مجھے ملا
- See more at: http://www.myvoicetv.com/
Post a Comment