کس بات کا انتظار کر رہے ہو ؟ سڑک پر پڑا پتھر اٹھاؤ اور برسانا شروع کردو۔مسجد کے باہر سے جوتے چوری کرو، پڑوسی کی رسی گلے میں ڈالو اور ایک ہار بنا ڈالو ۔پھر یاد کرو، دل کی گہرائیوں سے یاد کر لو، جتنی گالیاں یاد کر سکتے ہو کرلو اور ایک ساتھ بکنا شروع کردو،اُس سے بھی دل نہ بھرے تو اٹھاؤ لاٹھیاں اور جو ملے اُسے توڑ دو، جمع کرو ساری بوتلیں اور توڑ دو سارے شیشے، دل کوتسلی نہ ہو تو پہن لو سارے کالے کوٹ اور وہی کرو جو میں نے کیا تھا ۔ میں بھی عدالت کے چکر کاٹ رہا تھا اور میں نے ثابت کر دیا تھا کہ سابق حکومت میں کوئی اہلیت نہیں کہ وہ بجلی لا سکے ۔ یہ تو میں تھا جسے یقین تھا کہ بجلی لانا بس بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ میرا نام ہے وزیر ، میں نے اعتراف کیا ہے کہ میں بجلی نہیں دے سکا ۔ اب جو چاہو میرے ساتھ کرو ۔
سوال سوچنے کے ہیں لیکن جواب سارے بے معنی۔ مارے سوالات کیا تھے اور کیا ہیں ؟ امن ، ترقی، خوشحالی ،تعلیم ،صحت، روزگار ، آزادی اظہار اور بجلی ۔ ہمارے جواب کیا ہیں ؟ سب لوٹ مار ہے، سارے کرپٹ ہیں، سارے چور ہیں ، سب نے مُک مُکا کیا ہوا ہے ۔ اس کا ایک ہی حل ہے انقلاب ۔ مگر یہ انقلاب ہوتا کیا ہے ؟ بس وہی ہوتا ہے جو ایران میں آیا تھا ، جو چین میں آیا تھا جو روس میں آیا تھا جو فرانس میں آیا تھا ۔ جو سو سال پہلے آیا تھا جو ہزار سال پہلے آیا تھا ۔ کیا بکواس ہے ۔
کوئی تو مجھے بتائے کہ آخر دنیا بھر کے تمام انقلاب ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں ؟ اُن کے آنے کا طریقہ کیوں مختلف ہے ؟ اُس کے اثرات کیوں مختلف ہیں ؟ جب سب الگ الگ ہے تو پھر کسی کو تشبہیہ دینے سے وہ انقلاب کیسے آئے گا جو ممکن ہی نہیں ۔ہے کسی ٹھوس سوال کا کوئی ٹھوس جواب…؟ ہمارے وہ ہی رونے ہیں جو پانچ سال پہلے تھے ، ہمارے پاس ہر بات کا وہی جواب ہے جو دس سال پہلے تھا ۔ سڑک پر ٹریفک جام ہو تو سب ایک دوسرے کو گالیاں دے کر کہیں گے کہ چور حکمران ہیں سب کرپٹ ہیں اس لیے ایسا ہو رہا ہے لیکن کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا ۔ ایسے میں اگر ایک نے غلطی مان لی تو کیا برا کیا ۔ جو غلطی نہیں مانتا وہ بھی تو پانچ سال لوٹ کر جا رہا ہے ۔تو اسے بھی معاف کر دیں ۔ لیکن چونکہ اس نے غلطی کی معافی مانگی ہے اس لیے ہمارا اجتماعی فرض بنتا ہے کہ کم از کم ایک پتھر ضرور ماریں ۔
مگر سوالات تو وہیں کھڑے ہیں ۔ امن ، ترقی ، خوشحالی ، تعلیم ، صحت ، روزگار ، بجلی ، رویے وہ ہی ہیں جو ہر مسئلے میں ہوتے ہیں لیکن حل ؟ حل پر بات کرتے ہوئے ہم سب اپنی عقل کو ہل چلانے بھیج دیتے ہیں ۔ جس طرح ہم عوامی سطح پر سب کو چور کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں اسی طرح سیاست کی خصلت اپنے مخالف کو چور اور خود کو پارسا ثابت کرنے میں ہی مسئلے کا حل ڈھونڈھتی ہے ۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج وزیر معافیاں مانگ رہے ہیں ۔زیادہ دور نہیں لے جارہا صرف پانچ سال پیچھے موڑ کر دیکھیں ۔ آج بھی 19 جولائی ہے اُس دن بھی یہ ہی تاریخ تھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو اُتنا ہی وقت ہو چکا تھا جتنا ان شیروں کو ہو چکا ہے ۔
اُس وقت آپریشن راہ راست جاری تھا اور آج ضرب عضب ہے ۔ پاکستان بھر میں مون سون کی بارشوں نے قیامت ڈھائی ہوئی تھی ایک طرف صرف کراچی میں 45 افراد بارش سے جاں بحق ہو چکے تھے تو دوسری طرف لوڈ شیڈنگ کا عذاب تھا ۔ مسئلہ کا حل نہ ڈھونڈھا گیا اور علی بابا چالیس چور کا نعرہ لگا کرکوئی سڑک پر نکل آیا تو کوئی کورٹ چلا گیا ۔ خود کو پارسا ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور دوسروںکو چور ثابت کیا گیا ۔ اُسی دن پنجاب کے کئی شہروں میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرے کیے گئے ۔ فیصل آباد میں مظاہرین نے سڑکیں بلاک کر دی تھیں ۔ اور اُسی دن ایک عشائیہ میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ مظاہرین کا حق ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے اپنی آواز بلند کریں ۔پیپلز پارٹی ان کے مسئلے کو حل کرے گی ۔ لیکن پانچ سال گزر گئے اور کچھ نہ ہوا ۔کسی نے معافی نہیں مانگی؟
پانچ سال پہلے آج کے دن یعنی 19 جولائی کو بجلی کا شارٹ فال 4500 میگا واٹ تھا آج بھی اتنا ہی ہے بلکہ اُس سے بڑھ گیا ۔ آئیے ایک یاد گار تقریر کی پھر سے یاد دلاتا ہوں۔ آپ تقریر کے الفاظ پڑھ کر بتائے یہ کس نے کہا ہے ۔
’’اسلام آباد میں براجمان نا اہل حکمرانوں نے لوٹ مار اور بری حکمرانی سے نہ صرف پوری قوم کو مشکلات میں ڈال دیا ہے بلکہ جمہوری نظام اور جمہوری اداروں کو بھی نقصان پہنچایا ہے ملک کو درپیش مسائل کا حل آزادانہ اور شفاف انتخابات کا فوری انعقاد ہے ۔ ہمیں غیروں کی امداد کو خیرباد کہہ کر اپنے وسائل پر انحصار کرنا چاہیے ۔ وفاقی حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار نے قومی معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔ جس کے لیے احتساب کے کڑے نظام کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس طرز حکومت کو بدل کر سادگی اپنانا ہو گی۔ آج توانائی کے بحران کی اصل وجہ لوٹ مار ہے اور ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے عوام یہ وقت دیکھ رہی ہے۔‘‘
اب آپ سمجھ رہے ہونگے کہ میں نے عمران خان کی کسی تقریر کو یہاں چھاپ دیا ۔ شاید آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کسی تقریب میں جناب سراج الحق نے کہا ہوگا ۔ یا پھر ہوٹلوں میں بیٹھے کسی غریب کے دل کی بھڑاس ہے ۔ نہیں یہ ہمارے آج کے حکمرانوں کا تاریخی خطاب ہے جو آج سے پورے دو سال پہلے 19 جولائی کو انھوں نے کیا تھا۔ دو سال بعد کا وقت دیکھیں۔ اور ایک ایک جملہ پر غور کیجیے۔ انھوں نے کہا تھا توانائی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ لوٹ مار ہے ۔
آج جب طویل بجلی کا بحران ہے ۔ جگہ جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں تو جناب میں کیا کہوں ؟ وہ بات کہ جو خواجہ آصف نے کہی ہے کہ میں معافی چاہتا ہوں ۔ یا یہ کہوں کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کا افتتاح اس لیے کیا گیا کہ سیاسی پوائنٹ حاصل کیے جائیں جب کہ وہ ابھی تیار ہی نہیں ہوا ۔ میڈیا میں اس کے ’’مسٹیریس‘‘ پروجیکٹ ہونے کی دہائی دی جا رہی ہے، یا پھر ہم سب مل کر اسی بات کو دہرائیں کہ بجلی کا بحران اس لیے ہے کہ لوٹ مار کی جا رہی ہے ۔
جب کبھی بھی حقائق سے ہٹ کر صرف اور صرف سیاسی گیم بناننے کے لیے عوامی جھوٹے نعروںکا سہارا لے کر مخالفین کی بے عزتی کو ہی ہر بحران کا حل سمجھا جائے گا تب تک یہ مسئلے یوں ہی رہیں گے ۔ عوام کو اصل حقائق بتائیں ۔ کیونکہ جس سانپ سے آپ مخالف کو ڈسواتے ہیں اُسی زہر کا نشانہ پھر آپ بنتے ہیں ۔ یہ تین ماہ میں بجلی کا وعدہ، یہ چھ ماہ میں نام بدلنے کے دعوے سب ایک سال میں ہی ڈھیر ہو گئے ۔ کیوں ؟ اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اپنے پیسے نہیں ہیں ۔
ہم کھُل کر بتانے میں اپنی کمزوری سمجھ رہے ہیں ۔ اور پھر اولین ترجیح کو سیاسی گیم کے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ پالیسی کی بجائے پراجیکٹ کے پیچھے بھاگنا ہے ۔ موٹر وے اور لیپ ٹاپ سے باہر آجائیے ۔
دو سال پہلے کہا تھا کہ ایسی پالیسی بنائیے جو دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے مگر پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک ہی کام دل و جان سے کیا ہے ۔اور وہ ہے دنیا کے سامنے بھیک مانگنے کا ۔ بجلی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ، مذاکرات کا جن بوتل میں بند ہی نہیں ہوسکا ، گردشی قرضہ سامنے موجود ، بس جو ہدف توقع سے زیادہ ہو گیا وہ ہے بھیک کا ۔ کیا ہم اُس پر اپنی قوم سے معافی مانگنے پر تیار ہے ۔ اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو دنیا کے سامنے سب سے زیادہ مستحق اور بھیک کے قابل منوا لیا ہے ۔دیکھتے ہیں کہ بجلی کے جن کو کون سی بھکاری بوتل میں قید کیا جاتا ہے یا پھر دو سال بعد ایک اور معافی ہو گی۔ ہم آج تو معاف کردیتے ہیں لیکن آخر کب تک …!
expressnews.tv
Post a Comment