خلیفۂ راشد سیدنا امیر المومنین حضرت علی ؓ ۔ علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی
علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی / مفتی محمد نعیم اشاعت روزنامہ ایکسپریس اتوار 20 جولائ 2014
سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ فوٹو : فائل
شاہنشاہِ وِلایت، پروردۂ فیض ِ نبّوت، مولائے کائنات والا صفات امیر المومنین خلیفۃ المسلمین، سیدنا ابوالحسن علی ابنِ طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم عبد منافؓ تاریخِ اسلام کی وہ ہستی ہیں جن کے علّو مرتبت، رِفعت و عظمت اور عقیدت و محبت میں ہر اہلِ ایمان رطب اللسان ہے۔
ختمی مرتبت شہرِ علم و حکمت، فخرِ بنی آدم و عالَم حضور ( ﷺ ) نے فرمایا ’’ جس کا میں دوست اور مقرب ہوں اُس کے علی بھی دوست اور پیارے ہیں، اے اللّٰہ! جو علی سے محبت رکھے تو اُس سے محبت رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اُس سے دشمنی رکھ ( مشکوۃ شریف )
زرقانی اور مستدرک میں نورِ مجسم، شفیعِ معظم، رحمت ِ عالَم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ جس نے علی کو محبوب رکھا اُس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے مجھے محبوب رکھا اُس نے اللہ کو محبوب رکھا اور جس نے علی سے بُغض رکھا اُس نے محمد سے بُغض رکھا اور جس نے مجھ سے بُغض رکھا اُس نے ا للّٰہ تعالیٰ جلَّ شانہٗ سے بُغض رکھا‘‘۔ انسانیت کو معرفت ِ خدا وندیٔ عطا کرنے والے رسولِ خدا کے ان دو ارشادات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولائے کائنات سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کی ذات وہ ہے کہ اِن کی محبت و دوستی خدا و رسول کی محبت و دوستی ہے اور یہ فطرت کے مطابق ہے کہ دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔
اس سے بڑھ کر حضرت علیؓ کی عظمت کی دلیل کیا ہوگی کہ اُن کی محبت خدا و رسول کی محبت اور اُن کی دشمنی خدا و رسول کی دشمنی ہے۔ خدائے ذوالجلال کا ارشاد ہے جو میرے ولیوں اور دوستوں کو تکلیف دیتا ہے، اُن سے عَداوت رکھتا ہے، اُسے مجھ سے لڑنے کا چیلنج دے دو یعنی اولیاء اللہ سے عَداوت خدا کے قہر وغضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جب ایک ولی اللہ کی عداوت قہرِ خدا کا موجب ہے تو حضرت علی تو دنیا جہان کے تمام اولیائے کرام کے سردار اور سرخیل ہیں اُن کی عداوت اور بُغض فی الواقعہ قہرِ الہٰی اور تباہی و بربادی کا باعث ہے۔ ولی کے معنی دوست کے ہیں۔
دنیا کے کسی تاج دار کے دوست کو اذیت و تکلیف پہنچانا اس بادشاہ کے قہر کا نشانہ بننے کا سبب بننا ہے تو جو اللہ کے ولی اور مقرب کو تکلیف پہنچائے وہ دنیا و آخرت میں عذابِ شدید کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ولی کو قُربِ الہٰی کا یہ مرتبہ و مقام اُس وقت ملتا ہے جب کوئی انسان کامل الایمان ہوکر اپنی فکر اور اپنے عمل کی ہر سمت رضائے الہٰی کی طرف موڑ کر اپنی ہر خواہش کو فَنا کرکے اُس باقی کی رضا و خوش نودی کو اپنا نصب العین بنالیتا ہے۔ ایسا بندہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے اور پھر اُس پر بارانِ رحمت کا ایسا نُزول ہوتا ہے جو اُس کو ہر طرح ممتاز اور فائق بنا دیتا ہے، پھر اُس کی ذات و صفات میں نورِ خدا کے جلوے منّور نظر آتے ہیں اور وہ بندۂ مظہرِ نورِ خدا ہوجاتا ہے۔
سیدنا علی کرّم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ قرآنی احکام کے مطابق کسی بندے کے لئے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا کہ اُسے رضائے الہٰی کی سند مل جائے۔ طبرانی میں ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا اے علی! اللہ اس کا رسول اور جبریل تم سے راضی ہیں تمہیں ان سب کی رضا حاصل ہے۔ امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا کہ بے شک اللہ اور اس کا رسول علی کو محبوب رکھتے ہیں اور علی، اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اے علی تم سے محبت رکھنے والا مومن ہوگا اور تم سے بُغض رکھنے والا منافق ہوگا۔
( مسلم شریف ) اور صحیح حدیث میں ہے کہ سرکارِ دوعالَم ( ﷺ ) نے ارشاد فرمایا کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور علی ہر مومن کے ولی ہیں۔ ( ترمذی شریف ) ایمان عطا کرنے والے نبی پاک ﷺ فرما رہے ہیں کہ علی مجھ سے ہیں یعنی میرے اہل اور پیاروں سے ہیں اور میں علی سے ہوں یعنی علم و حکمت اور شجاعت و ہمت کے لحاظ سے علی سے ظاہر ہوں گویا علی میں میرے کمالات کا فیض ہے اور پھر فرمایا علی ہر مومن کا ولی ہے اور پہلے ارشاد میں فرمایا کہ مومن علی سے محبت اور منافق بُغض رکھے گا۔
ان ارشادات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مولائے کائنات کی شخصیت وہ ہے جو ایمان کی کسوٹی ہے۔ مومن کی پہچان ہی علی کی محبت ہے اور منافق کی پہچان علی کا بُغض ہے۔ یہ مرتبت کا وہ کمال ہے جو ذات ِ علی کو بارگاہِ نبی سے اور رہتی دنیا تک کے لئے قانون بن گیا۔ امام احمد، اسمعٰیل قاضی، نسائی اور ابوعلی خیشا پوری جیسے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جو احادیث جید الاسناد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق میں وارد ہوئی ہیں اس قسم کی حدیثیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں کسی اور کے حق میں وارد نہیں ہوئیں اور یہ اس لئے تھا کہ بنی امیّہ حضرت علی کی تنقیص کیا کرتے تھے اس لئے صحابہ کرام وہ تمام ارشاداتِ نبوی جو حضرت علی کے حق میں تھے محبت سے بَرملا بیان کرتے تھے ۔
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میرے معاملے میں دو قسم کے لوگ ہلاکت کا شکار ہوں گے۔ ایک وہ طبقہ لوگوں کا ہلاک ہوگا جو محبت میں مجھے حد سے بڑھانے والا ہوگا اور وہ محبت انہیں غیرِحق کی طرف لے جائے گی اور دوسرا طبقہ وہ جو کہ بُغض میں مجھے مرتبے سے گھٹانے والا ہوگا اور یہ بُغض انہیں غیرِ حق کی طرف لے جائے گا اور میرے معاملے میں سب سے بہتر حال درمیانی جماعت کا ہے، پس اُسی کو لازم کرلو اور اُس درمیانی بڑی جماعت کے ساتھ وابستہ رہو کیوں کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے۔
آگاہ ہوجاؤ ! اِس جماعت سے علیحدہ ہونے والا اسی طرح شیطان کا شکار ہوجائے گا جس طرح وہ بکری بھیڑئیے کا شکار ہوجاتی ہے جو گلے اور ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے‘‘ ( نہج البلاغۃ ) اگر اس فرمانِ علی کو دیکھا جائے تو یہ شریعت و سنّت کے عین مطابق ہے کیوں کہ قرآن و حدیث بھی ہر مسلمان کو افراط و تفریط سے پاک درمیانے درجے پر استقامت کی تعلیم دیتے ہیں، اعتدال اور میانہ رَوی ہی خدا و رسول کو پسند ہے۔ فرمانِ رسولِ خدا کے مطابق حضرت علی کی محبت علامت ِ ایمان ہے اور یہ محبت خدا و رسول کی محبت کے سبب سے ہے اس لئے حد سے افراط بھی غلط ہے اور بغضِ علی علامت ِ نفاق ہے اور کسی مسلمان کے لئے کینہ رکھنے والا بخششِ خدا وندی سے محروم رہتا ہے تو بِرادر و دامادِ رسول اور امام المتقین سیّدنا علی کا بُغض رکھنے والا کس طرح رحمت و مغفرت ِ الہٰی حاصل کرسکے گا ۔
علم و حکمت، تقوٰی و زہد، شجاعت و جرأت، فضل و کمال ہر طرح سیرتِ مرتضٰی تابندہ و درخشندہ ہے۔ تقوٰی کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شرابی کسی نہر میں نہائے اس نہر کا پانی کسی کھیت کو لگے اس کھیت میں سبزہ ہوجائے اور وہ سبزہ کوئی گائے کھالے تو میں اس گائے کا دودھ بھی نہیں پیوں گا۔ علم و حکمت کا یہ احوال ہے کہ فرماتے ہیں جو شخص مجھ سے کوئی بھی سوال کرے میں اُس کا جواب قرآن سے دوں گا یہاں تک کہ ایک مسئلے میں امیر المومنین سیدنا عمرِفاروقؓ نے فرمایا اگر آج علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ فرمایا قرآن کے تمام اسرار و رموز اور قرآن کا خلاصہ سورۂ فاتحہ میں اور سورۂ فاتحہ کا خلاصہ بسم اللہ میں ہے اگر صرف بسم اللہ کی ب کے نقطے کی تفسیر و تشریح کروں تو اتنی کتابیں ہوجائیں جنہیں ستّر اونٹ نہ اٹھا سکیں ۔ یہ بھی فیضِ نبوی تھا جب مدینۂ عِلم کے دروازے کے عِلم کا یہ حال ہے تو خود شہرِ عِلم کے عِلم کا احوال و مرتبہ کیا ہوگا۔
شجاعت و جرأت کی یہ شان ہے کہ میدانِ بدر میں جب کفّار سے برسرِپیکار تھے تو غیب سے نِدا آرہی تھی ’’ لافتٰی الا علی لا سیف الا ذوالفقار‘‘ (علی جیسا جوان کوئی نہیں اور ذوالفقار جیسی تلوار کوئی نہیں )۔ قلعۂ خیبر کا وہ دروازہ جسے چالیس افراد مل کر ہلا نہیں پائے تھے وہ تنہا حضرت علیؓ نے اپنے ہاتھوں پر اٹھایا۔ فضل و کمال کا یہ مقام کہ ہر وابستۂ علی مقبول و محبوب ِ خدا و رسول ہے۔ اسلام قبول کرنے والے سب سے پہلے کم عمر انسان جو اطاعت ِ خدا و رسول کے سبب امّت ِ مسلمہ کے کروڑوں برگزیدہ لوگوں کے بھی پیشوا ٹھہرے ۔
خطیب، طبرانی اور امام احمد نے اس روایت کو نقل کِیا ’’ حضورِ اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا گزشتہ لوگوں میں سب سے بدبخت کون تھا ؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا وہ شخص جس نے اللہ کے نبی صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچھیں کاٹی تھیں۔ رحمت ِ عالَم ( ﷺ ) نے پوچھا اور آنے والے بعد کے لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت کون ہوگا ؟ حضرت علیؓ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ سرکارِ دو عالَم ( ﷺ ) نے فرمایا بعد کے لوگوں میں سب سے زیادہ شقی وہ شخص ہوگا جو تمہارا قاتل ہوگا۔ خلاصۂ تحریر یہ کہ محب و غلامِ علی مقبولِ خدا ہے اور دشمنِ علی فی الحقیقہ دشمنِ خدا ہے۔ امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے حضرت علیؓ کو وفات کی خبر سُن کر فرمایا ’’ اب عرب جو چاہے سو کرے اب اس کا کوئی خصم نہیں رہا۔
ساقی کوثر امام و رہنما، ابنِ مم مصطفی شیرِ خدا
مرتضٰی و مجتبٰی جنت بتول، خواجہ معصوم دامادِ رسولؐ
( عطار )
یوں تو بعثت نبوی سے پہلے بھی مکہ مکرمہ میں متعدد قبائل بسے ہوئے تھے لیکن تمام کے تمام اہل عرب قبیلۂ قریش کی عالی نسبی کے قائل تھے۔ قریش کو قبائل عرب پر خاندانی تفوق حاصل تھا، ان کا زبان و لہجہ دوسروں کے لیے معیار تھا۔ مہمان نوازی، شجاعت اور جواں مردی کے جوہر امتیازی طور پر پائے جاتے تھے۔
خود قبیلہ قریش کی مختلف شاخیں تھیں جس میں بنوہاشم کی حیثیت ایک گل سرسبد (پھولوں میں سب سے اچھا پھول) کی تھی۔ قریش کی یہ شاخ اپنے انسانی شعور اور اعتدال پسندی میں امتیاز رکھتی تھی، دینی و دماغی طور پر بھی اس کو کسی قدر فوقیت حاصل تھی، بیت اﷲ (خانہ کعبہ) کا اﷲتعالیٰ کے یہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس پر پختہ ایمان رکھتی تھی، ان میں ظلم و زیادتی کو گناہ سمجھنے کا شعور ابھی ختم نہیں ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور ضد اُن کا شعار نہیں تھا، ہمت بلند تھی، کمزوروں اور ضعیفوں پر رحمت و شفقت کا برتاؤ کرنا، سخاوت و شجاعت اس کا مزاج تھا، الغرض اخلاق و شرافت، سیرچشمی، حمیت اور جوش عمل کی وہ خصوصیات جس کے لیے عربی میں ایک جامع لفظ ’’فروسیت‘‘ کا ہے۔ بنی ہاشم میں بدرجہ اتم موجود تھا، ہمارے نبی ﷺ اسی شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔
بنی ہاشم میں ایک معزز و مکرم نام عبدالمطلب بن ہاشم کا بھی پایا جاتا ہے جو حجاج کے لیے پینے کا پانی فراہم کرنے اور ان کی مہمان نوازی (سقایہ، رفادہ) کے منصب پر فائز تھے۔ اور اپنے مفوّضہ کام کو دلچسپی و سرگرمی اور اخلاص سے سرانجام دیتے تھے، اپنے منصب کے لحاظ سے زمزم کے کنویں کے متولّی تھے جب ابرہہ کی فوج بیت اﷲ پر حملہ آور ہونے کو آئی اور مکہ سے باہر پڑاؤ ڈالا اس وقت بیت اﷲ اور اہل مکہ کی طرف سے گفتگو کرنے کے لیے عبدالمطلب ہی گئے تھے، عبدالمطلب اپنی اولاد کو ظلم و زیادتی سے باز رکھتے، اخلاق و شرافت کے اصول پر قائم رہنے اور پستی و بداخلاقی سے دور رہنے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔
ان کے ایک صاحبزادے کا نام مشہور روایت کے اعتبار سے عبدمناف یا عمران یا شیبہ تھا لیکن اپنے ایک بیٹے طالب کی کنیت کی وجہ سے ابوطالب سے مشہور ہوئے، قریش کے ان ممتاز لوگوں میں تھے جو حکم اور تنازعات میں فیصلہ کرنے والوں کا درجہ رکھتے تھے، سرداروں میں سے تھے، اہم مسائل میں لوگ ان کی طرف رجوع کرتے تھے، عبدالمطلب کے انتقال کے بعد انہوں نے حضورﷺ کو اپنی کفالت میں لیا اور فکر و اہتمام کے ساتھ آپ کی تربیت کی۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے والد عبداﷲ اور ابوطالب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے حقیقی بھائی تھے۔ نبی ﷺ کو اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، اپنے ساتھ سلاتے، کہیں جاتے تو اپنے ساتھ لے جاتے۔
ان کی اہلیہ فاطمہ بنت اسد آپ ﷺ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ رسول اﷲ ﷺ اپنی چچی کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ کے انتقال کے بعد میں جن کے بطن سے میں پیدا ہوا، یہی میری ماں تھیں۔ ابوطالب جب دعوت کرتے اور گھر کے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی شریک کرتے تو یہ خاتون (اہلیہ ابوطالب) کھانے میں سے کچھ بچا کر رکھتیں اور میں کسی اور وقت اس کو کھاتا، فاطمہ بنت اسد مشرف بہ اسلام ہوئیں، مدینہ ہجرت فرمائی، اور جب ان کی وفات ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اپنا کُرتا (کفن کے طور پر) پہنایا ان کی قبر میں پہلے خود جاکر لیٹے، یہ سب ان کی خدمات اور شفقت کا اعتراف اور ان کی عزت و تکریم کا اظہار تھا۔ ابوطالب کے چار صاحبزادے تھے، طالب، عقیل، جعفر اور علی، دو صاحبزادیاں ام ہانی اور جمانہ۔ یہ چھ کے چھ افراد فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک حسن اتفاق یہ بھی ہے کہ ان تمام بھائی بہنوں میں عمر کے اعتبار سے دس دس سال کا فرق تھا۔
ابوطالب کی اولاد میں سے نبی ﷺ نے بعثت سے پہلے ہی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو کفالت میں لے لیا تھا اور حضرت عباسؓ نے حضرت جعفرؓ کی کفالت اپنے ذمے لے لی تھی۔ علی بن ابی طالبؓ ایک مرتبہ ایسے وقت گھر میں آئے کہ رسول اﷲ ﷺ اور حضرت خدیجہؓ دونوں نماز میں تھے۔ حضرت علی نے کہا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ رسول اﷲ ﷺ نے بتلایا کہ یہ اﷲ کا دین ہے جس کو اﷲ نے اپنے لیے پسند کیا، اسی کے لیے انبیاء کو مبعوث کیا، میں تم کو بھی خدائے واحد کی طرف بلاتا ہوں جو تنہا معبود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
حضرت علیؓ اس رات خاموشی اختیار کیے رہے یہاں تک کہ اﷲ نے ان کے دل میں اسلام ڈال دیا، صبح سویرے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، لات و عزّٰی کا انکار کرو، اﷲ کا کسی کو شریک ٹھہرانے سے بری ہوجاؤ۔ حضرت علی نے کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام لے آئے۔ یہ اور ان جیسی ثابت شدہ روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت خدیجہ کے بعد پہلے ایمان لانے والے حضرت علیؓ ہیں ( مردوں میں پہلے شخص ہیں جس نے نماز پڑھی) اس وقت ان کی عمر نو سال کی تھی۔ اس طرح محدثین و مؤرخین نے یہ ترتیب بتلائی ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ایمان لائیں، بچوں میں یہ شرف حضرت علیؓ کو ملا اور مَردوں میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ ایمان لانے والوں میں سرفہرست ہیں۔
حضرت علیؓ کا ایک انتہائی اعزاز یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ گھر سے نکلے اور کعبہ کے دروازے پر آئے پہلے آنحضرت ﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور میرے کاندھوں پر پیر رکھ کر کھڑے ہوئے اور مجھے کہا کہ کھڑے ہوجاؤ، میں کھڑا ہوگیا لیکن میری کمزوری کو آنحضرت ﷺ نے بھانپ لیا پھر خود حضور ﷺ بیٹھے اور مجھے سے کہا کہ میرے کاندھوں پر سوار ہوجاؤ اور آنحضرت ﷺ مجھے لیے ہوئے کھڑے ہوئے اور مجھے ایسے لگا کہ اتنا بلند ہورہا ہوں کہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جاؤں گا میں کعبے کی چھت پر پہنچا اور وہاں پیتل تانبے کا بنا ہوا بُت رکھا ہوا تھا اس کو دائیں بائیں موڑنے لگا آگے پیچھے ہلانے لگا یہاں تک کہ اس کو اپنے قبضے میں لے لیا حضور نے فرمایا کہ اسے گرا دوں۔ میں نے اسے گرایا تو وہ ایسے چورچور ہوگیا جیسے شیشے کے بنے ہوئے برتن، پھر میں وہاں سے اُترا ہم دونوں تیز قدم چلتے ہوئے گھروں کے پیچھے آگئے۔ حضرت علی کو یہ اعزاز ہجرت کے واقعے سے پہلے حاصل ہوچکا تھا۔
رسول اﷲ ﷺ کی ہجرت کے موقعے پر لوگوں کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کی غرض سے حضرت علیؓ کو نہ صرف مکہ مکرمہ میں رُک کر ان امانتوں کو واپس کرنے کا حکم دیا بلکہ نبی ﷺ نے اُنہیں اپنے بستر پر سونے کی اجازت بصورت حکم عطا فرمائی اور فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے خود بھی مدینہ منورہ آجانا۔ باوجود اس کے نبی ﷺ کے گھر کے باہر کفار مکہ کے تمام قبائل کے نمائندے ایک ساتھ نبی ﷺ پر حملہ آور ہونے کے لیے جمع تھے لیکن نبی ﷺ کے اس ارشاد کہ ’’لوگوںکو امانتیں واپس کرکے مدینہ آجانا‘‘ پر حضرت علیؓ کا ایسا یقین تھا کہ مجھ پر ان دنوں میں تو موت نہیں آتی اس لیے کہ نبی ﷺ نے واضح طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ امانتیں واپس کرکے مدینے آجانا۔
امانتوں کے واپس کرنے کے بعد حضرت علیؓ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ یہاں نبی ﷺ نے ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصار کا آپس میں بھائی بناتے ہوئے مواخات کا تعلق قائم کیا لیکن سیدنا حضرت علیؓ اکیلے ایسے شخص رہ گئے تھے جن کی کسی انصاری کے ساتھ مواخات قائم نہیں کی گئی۔ یہ بات سیدنا حضرت علیؓ نے نبی ﷺ سے افسردگی کی حالت میں ظاہر کی نبی ﷺ نے حضرت علیؓ کو یہ شرف بخشا کہ اُن کی مواخات خود اپنی ذات سے قائم فرمائی۔
ہجرت کے دوسرے سال رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایک اور اعزاز بخشا کہ اپنی سب سے پیاری لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا عقد حضرت علیؓ سے کردیا اس موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میں نے تمہارا نکاح اہل بیت کے بہترین فرد سے کردیا ہے۔‘‘ پھر ان کو دعائیں دیں اور پانی چھڑکا، نکاح کے وقت سیدہ فاطمہ کی عمر 15 سال اور ساڑھے پانچ ماہ تھی اور سیدنا علی بن ابی طالب کی عمر 21 سال اور پانچ ماہ تھی۔ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی ہے غزوہ تبوک میں بھی رسول اﷲ ﷺ نے اُنہیں مدینہ منورہ میں عورتوں کے پاس ٹھہرنے کا حکم دیا تھا جس کا اظہار حضرت علیؓ نے افسردگی کے عالم میں نبی ﷺ سے کیا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح جیسے انہوں نے ہارون علیہ السلام کو طور پر جاتے ہوئے قوم کے پاس ٹھہرایا تھا تمہیں وہ مقام دے رہا ہوں فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہؓ میں سے حضرت علیؓ کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ مسلمانوں کی طرف سے انہوں نے صلح حدیبیہ لکھا جسے آنحضرت ﷺ نے لکھواتے ہوئے فرمایا کہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھو، کفار کی طرف سے حضرت سہیل (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) اس مقصد کے لیے نمائندہ تھے انہوں نے رحمن کے نام پر اعتراض کیا کہ میں رحمن کو نہیں جانتا، باسمک اللھم لکھا جائے، حضور ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں یہی لکھو، اس کے بعد آپ ﷺ نے لکھوایا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اﷲ ﷺ نے فیصلہ کیا۔ سہیل نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اﷲ مانتے تو نہ آپ کو بیت اﷲ آنے سے روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اگرچہ تم جھٹلاتے رہو، میں اﷲ کا رسول ہوں، سہیل نے کہا کہ یہ لکھا جائے کہ محمد بن عبداﷲ حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ پہلا لکھا ہوا مٹا دیں، حضرت علیؓ نے کہا خدا کی قسم! میں اس کو قطعاً نہیں مٹا سکتا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ جگہ بتاؤ جہاں رسول اﷲ لکھا ہے میں خود مٹا دیتا ہوں۔ سیدنا حضرت علی بن ابی طالبؓ کا ایک اور اعزاز ہے کہ خیبر کے موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جسے اﷲ اور اس کا رسول پسند فرماتے ہیں اور اس کے ہاتھ سے یہ قلعہ فتح ہوگا۔ بہت سے صحابہ اس موقع پر اپنے لیے اس سرفرازی کے لیے متمنی تھے۔ حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا، اُن کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ نبی ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور ان کے لیے دعا کی جس کی وجہ سے اسی لمحے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایسی دور ہوگئی گویا کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
آپ ﷺ نے اُن کے ہاتھ میں جھنڈا دیا، حضرت علیؓ نے پوچھا کیا میں اس وقت تک ان کے ساتھ قتال کروں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہوجائیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا تم اپنی راہ پر گامزن ہوجاؤ ان کے مقابلے میں اُتر کر اُنہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اُن پر اﷲ تعالیٰ کا کیا حق ہے۔ بخدا! اگر تمہارے ہاتھ ایک آدمی ہی ہدایت پاجائے تو تمہارے لیے بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
بالآخر سنت الہٰی جو انبیائے کرام اور تمام مخلوقات کے لیے مقدر ہے اس کا وقت آپہنچا، دعوت الی اﷲ کی مہم مکمل ہوچکی تھی، قانون سازی کا کام تکمیل پاچکا تھا۔ اﷲ نے اپنے پیغمبرحق کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں، آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ لوگ پروانہ وار جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں اور سارے عالم میں اس کے پھیلنے کے آثار نمایاں ہوچکے ہیں یہاں تک کہ اس کے بعد نبی ﷺ کی طبیعت خراب ہوئی اور تکلیف بڑھی، آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور اٹھنے کا ارادہ کیا تھا کہ بے ہوشی طاری ہوگئی پھر سنبھالا لیا اور پوچھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ عرض کی نہیں۔ یا رسول اﷲ! لوگ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ عشاء کی نماز کا وقت تھا آپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بلوایا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے امامت کی نبی ﷺ نے اپنی تکلیف میں کمی محسوس فرمائی تو دو آدمیوں حضرت عباس و علی کے سہارے اُٹھے اور ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں تشریف فرما ہوئے حضرت ابوبکر نے آپ ﷺ کو مسجد نبوی میں بنفس نفیس موجود پایا تو امامت کے لیے جھجکے مگر آپ ﷺ نے اُن کو اشارہ فرمایا، حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھائی اور رسول اﷲ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اس موقع پر وصیت فرمائی کہ نماز کی پابندی کی جائے، زکوٰۃ ادا کی جائے، اور غلاموں اور باندیوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں آپ کو دیکھتی گئی اور آپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’فی الرفیق الاعلیٰ‘‘ (سب سے بڑی رفاقت والے کے حضور میں) یہی فرماتے ہوئے آپ کی روح مبارک پرواز کرگئی۔
آپ ﷺکے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ایک انتہائی نازک گھڑی اور آزمائش اس امت کے لیے تھی اور بہت سارے خدشات پیدا ہورہے تھے کہ اﷲتعالیٰ نے دستگیری فرمائی اور امت پہلے خلیفہ کے طور پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر جمع ہوگئی۔ دیگر تمام اصحاب کی طرح حضرت سیدنا علیؓ نے بھی آپ سے بیعت کی اور آپ کی خلافت کی تکمیل تک آپ کے تابع فرمان رہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد جو منصب حضرت عمر بن خطابؓ تک پہنچا۔ یہاں بھی سیدنا حضرت علیؓ نے نہ صرف بیعت فرمائی بلکہ ان کے بھی تابع فرمان رہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد متفقہ طور پر یہ منصب سیدنا حضرت عثمان بن عفانؓ تک پہنچا اور حضرت سیدنا علیؓ نے بھی نہ صرف بیعت کی بلکہ اُن کے تابع فرمان بھی رہے اور ان تینوں خلفائے راشدین کے مشیر بھی رہے، سیدنا عثمانؓ شہادت کے بعد اﷲتعالیٰ نے یہ سعادت سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے سپرد فرمائی اور یہ ایک ایسا موقعہ تھا کہ مسلمانوں میں آپس میں بھی افتراق و انتشار پیدا ہوچکا تھا۔ ان ہی اختلافات کی وجہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین کے معرکے خود مسلمانوں کے درمیان پیش آئے، اﷲ ہی جانتا ہے کہ اس میں اس کی حکمت کیا تھی؟
علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت علیؓ کو حالات نے بہت مکدر کردیا تھا ان کی فوج میں بے راہ روی تھی ، اہل عراق نے ان کی مخالفت شروع کردی تھی، ان کے ساتھ تعاون سے کترا رہے تھے ادھر شامیوں کی قوت زور پکڑ چکی تھی، اب وہ دائیں بائیں حملہ کرتے اور لوٹ مار مچا رہے تھے، عراق کے امیر علی ابن طالبؓ اس زمانے میں روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سب سے اعلیٰ و افضل انسان تھے، سب سے زیادہ اﷲ کے عبادت گزار، سب سے زیادہ دنیا سے بے غرض و بے رغبت، سب سے زیادہ علم و فضل کے حامل، سب سے زیادہ خوف خدا رکھنے والے انسان تھے۔ پھر بھی لوگوں نے ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا، ان سے کنارہ کش ہوگئے یہاں تک کہ خود امیرالمومنین اپنی زندگی سے اکتا گئے اور موت کی تمنا کرنے لگے، کہتے تھے کہ یہ (اپنی ریش مبارک کی طرف اشارہ کرکے) اس کے (اپنے سر کی طرف اشارہ کرکے) خوف سے رنگ دی جائے وار بالآخر یہی ہوکر رہا۔
سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ جمعے کے روز سحر کے وقت شہید ہوئے۔ رمضان کے 17روزے ہوچکے تھے، تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق آپ کی شہادت کی تاریح 21 رمضان بتلائی جاتی ہے جوکہ مشہور و معروف ہوچکی ہے۔ آپ کی خلافت کی مدت چارسال نوماہ ہے۔ نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ نے پڑھائی اور کوفے کے دارالامارہ میں تدفین ہوئی۔ رضی اﷲ عنہ وارضاہ
Post a Comment