غزل
خاموش ہیں ارسطو و فلاطوں مرے آگے
دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے
دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بہ شدّت
واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے
لاتا نہیں خاطر میں سُخن بیہودہ گو کا
اعجاز میسحا بھی ہے افسوں مرے آگے
میں گوز سمجھتا ہوں سدا اُس کی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کا چوں چوں مرے آگے
سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں
کیا شعر پڑھے گا کوئی موزوں مرے آگے
قدرت ہے خدا کی کہ ہوئے آج وہ شاعر
طفلی میں جو کل کرتے تھے غاں غوں مرے آگے
اُستاد ہوں میں مصحفی حکمت کے بھی فن میں
ہے کودک نودرس فلاطوں مرے آگے
(مصحفی)
Post a Comment