حضرت سعید بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’ کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی تربیت سے بہتر نہیں دیا۔ ‘‘(رواہ الترمذی) یہ حقیقت ہے کہ نیک اولاد دُنیا میں بہت بڑی نعمت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت کے لیے صدقہ جاریہ ہے لیکن یہی اولاد اگر دینی اور اخلاقی قدروں سے بیگانہ ہو تو ماں باپ کو اس کے لیے ابتداء ہی سے تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ یہ بات علم نفسیات اور اخلاقیات کے ماہر تسلیم کر چکے ہیں۔ اسلام نے اس طریقے کی مکمل تعلیم دی کہ بچے کو ابتداء ہی سے دینی قدروں سے کیسے روشناس کرایا جائے۔ رسول اللہ ؐنے ہر صاحب اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق واضح فرمایا ہے کہ وہ بالکل ابتداء ہی سے اولاد کی دینی تعلیم اور تربیت کی فکر کرے۔ ابتداء سے مراد یہ نہیں کہ جب وہ چلنا شروع کرے اور باتیں کرنا اور سمجھنا شروع کرے تب دینی تعلیم کی فکر کی جائے بلکہ پیدا ہونے کے فوراً بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کی تعلیم دی جائے۔ جدید سائنسی تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور جو آنکھوں سے دیکھے‘ اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو رسول اللہ ؐنے ارشادفرمایا: ترجمہ: یعنی آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ اس کا نام دیتا ہے اس لیے اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے۔ اچھا نام وہ ہے جس کا مطلب اچھا ہو‘ غیر اسلامی اور غیر شرعی مفہوم نہ ہو۔ پھر جب بچہ بولنا شروع کرے تو فرمایا: ترجمہ: یعنی جب بچہ بولنے لگے تو اس کی زبان کا افتتاح کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ سے کرائو۔ معاشرہ میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوںکو اچھی خاصی نظمیں، کہانیاں، اپنی زبان حتیٰ کہ دوسری زبانیں تک یاد ہوتی ہیں لیکن کلمہ یاد نہیں ہوتا۔ اس میں ماں باپ کی بڑی ذمہ داری ہے کہ جب بچہ ذرا بڑا ہو تو ارشاد نبوی ؐہے: ترجمہ:’’کسی باپ نے اچھی تربیت سے زیادہ اچھا تحفہ اپنی اولاد کو نہیں دیا۔‘‘ بچوں کو مہنگے سے مہنگے، خوبصورت ترین کپڑے اور جوتے پہنائے جائیں ۔اچھے سے اچھے کھلونے لا کر دیں لیکن اگر ان میں ادب و احترام نہیں‘ سلیقہ وتمیز نہیں‘ اس کے اخلاق بہتر نہیں تو یقین جانیے کہ محض پیسہ خرچ کر دینے سے اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں بنتی۔ اگر بچے نے سادے سے کپڑے بھی پہنے ہوں، اچھے اخلاق اور اسلامی قدروں سے آراستہ ہو تو وہ ماں باپ کی تربیت کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتا ہے۔ ایک صاحب اپنے بچے کے بارے میں شکایت لے کر آئے کہ اس کی زبان پاکیزہ نہیں اور بات کرنے کی تمیز تو بالکل نہیں۔ میں نے گذارش کی کہ میں انشاء اللہ اسے سمجھا دوں گا‘ آئندہ ایسا نہیں کرے گا تو بچے کے والد نے خوب بڑی سی گالی نکال کر بڑے عجیب انداز میں کہا:’’ جناب میں نے اسے خوب سمجھایا ہے ۔ وہ اس طرح ٹھیک نہیں ہو گا، اس کی ہڈیاں توڑ دیں۔‘‘ میں نے اسی وقت بچے کو باہر بھیج دیا اور اس کے والد سے کہا:’’ جناب بیماری کی تشخیص تو ہو چکی ہے۔آپ پہلے اپنی زبان کو پاکیزہ اور اخلاق کو بہتر بنائیں پھربچہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ہر بچہ وہی کرتا ہے جو اس کے ذہن میں نقش ہوتا ہے اور نقش وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ کانوں سے سنتا ہے، آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ گھر میں آئے دن میاں بیوی کے جھگڑے ،آپس کی بدزبانی، ماں باپ کا بچوں سے منفی انداز میں گفتگو کرنا، یہ سب کچھ اس کے ذہن میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ پھر ذہن میں جب وہ کیسٹ چلتی ہے تو اس کا اندازِ گفتگو بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ کیسٹ میں ریکارڈ کچھ اور کیا جائے، سنا کچھ اور جائے ۔ اولاد کو دینی قدروں سے آگاہی کی پہلی تدبیر، تدبیر منزل ہے۔ اپنے گھروں کو ان قدروں سے بچانے کے بعد اولاد پر اس کے نقش یقینا نظر آئیں گے۔ ایک ماں اپنے بچے کو استاد کے پاس لے گئی۔ استاد صاحب نے قاعدہ شروع کرایا۔ بچے کو الف ب بھی نہیں آتی تھی لیکن بچے نے بتایا کہ اسے قرآن حکیم کے پندرہ پارے زبانی یاد ہیں اور پھر سنائے بھی۔ استاد بہت حیران ہوئے۔ ماں کو بلایا تو اس نے بتایا کہ دراصل بات یہ ہے کہ جب میں اسے سلاتی تھی تو لوری سناتے وقت قرآن مجید پڑھتی تھی۔ اس نے بار بار سنا اور سن کر یاد کر لیا۔ لیکن مجھے صرف پندرہ پارے یاد تھے، اس لیے باقی قرآن حکیم اسے یاد نہ ہوا ۔یہ جب بڑے ہوئے تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے نام سے روحانیت کے بلند درجہ پر فائز ہوئے۔ یہی تشریح ہے اس جملہ کی کہ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ رسول اللہ ؐ نے ماں باپ کو اولاد کی تربیت کے بارے میںحساس رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس کا اندازہ حضرت عبداللہ بن عامرؓ کی روایت سے ہوتا ہے، فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ ؐ ہمارے گھر تشریف فرما تھے تو میری والدہ نے مجھے پکارا اور کہا، ادھر آئو میں کوئی چیز دوں گی۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: تم نے اس بچے کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا؟ والدہ نے کہا : کھجور دینے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: اس کہنے کے بعد اگر تم کوئی چیز بچے کو نہ دیتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔ اس ارشاد نبوی ؐسے معلوم ہوا کہ بچوں کو بہلانے کے لیے بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں۔ جب بچہ سات برس کا ہو جائے تو رسول اللہ ؐ کاارشادمبارکہ ہے بچے کو نماز پڑھنے کی پابندی کرانی چاہیے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو نماز کے بارے میں سختی بھی کریں۔ اس طرح جب بچہ باشعور ہو گا تو اس کو عبادت کی عادت ہو گی۔ جب سکول، مدرسہ میں تعلیم کا وقت آئے تو اس کی عادات پر والدین کی گہری نظر ہونی چاہیے۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے تاکہ خراب ماحول سے آلودہ نہ ہو جائے۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور مختلف گناہوں سے پرہیز کی تلقین کے ساتھ ساتھ گھر کے ماحول کو مکمل طور پر دینی اور اخلاقی قدروں سے آراستہ رکھنا چاہیے جس میں صبر و شکر، قناعت و ہمدردی جیسی صفات ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اولاد کو نیک، فرمانبردار اور دیندار بنائے۔آمین!
روزنامہ دنیا
Post a Comment