One girl which has three real parents - ایک لڑکی جس کے تین حقیقی والدین ہیں


بی بی سی اردو۔ الانا کے جسم میں تین مختلف افراد کا ڈی این اے ہے
الانا سارينین کو گالف کھیلنا، پیانو بجانا، موسیقی سننا اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہے ان عادات کے ساتھ شاید وہ دنیا کی دوسری لڑکیوں کی طرح ہی ہے لیکن ایک بات ایسی ہے جو آپ میں یا دوسرے لوگوں میں نہیں ہے۔
الانا دنیا میں موجود ان گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں جن کے جسم میں تین مختلف افراد کا ڈی این اے ہے۔
الانا کہتی ہیں: ’بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میرا چہرہ میری ماں سے ملتا ہے، میری آنکھیں میرے والد کی طرح ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مجھے کچھ خصوصیات ان سے ملی ہیں اور میری شخصیت بھی کچھ ان کی ہی طرح ہے۔‘
وہ کہتی ہیں: ’میرے جسم میں ایک اور خاتون کا بھی ڈی این اے ہے لیکن میں انھیں اپنی دوسری ماں نہیں مانتی، میرے جسم میں ان کے کچھ ماٹوكانڈريا ہیں۔‘
مائٹوكانڈريا کسی بھی خلیے کے اندر پایا جاتا ہے جس کا بنیادی کام خلیے کے ہر حصے میں توانائی پہنچانا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے مائٹوكانڈريا کو جسم کا پاور ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔
مائٹوكانڈريا کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف ماں ہی سے وراثت میں ملتے ہیں، والد سے کبھی نہیں۔

مائٹوكانڈريل تبدیلی کی قانونی حیثیت

برطانیہ جینیاتی طور بیماری کو ختم کرنے کے لیے مائٹوكانڈريا لینے کی نئی تکنیکی کو قانونی درجہ دے سکتا ہے۔اسے مائٹوكانڈريل تبدیلی کہا جاتا ہے اور اگر برطانوی پارلیمنٹ سے اسے منظوری مل جاتی ہے تو برطانیہ تین لوگوں کے ڈی این اے لے کر پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی جواز دینے والا پہلا ملک ہوگا۔
الانا دنیا کے ان 30 سے 50 لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے جسم میں کسی تیسرے شخص کے کچھ مائٹوكانڈريا ہیں اور اسی وجہ سے کچھ ڈی این اے بھی۔
لیکن جلد ہی الانا جیسے لوگوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ برطانیہ جینیاتی طور بیماری کو ختم کرنے کے لیے مائٹوكانڈريا لینے کی نئی تکنیک کو قانونی درجہ دے سکتا ہے۔
اسے مائٹوكانڈريل تبدیلی کہا جاتا ہے اور اگر برطانوی پارلیمنٹ سے اسے منظوری مل جاتی ہے تو برطانیہ کے تین لوگوں کے ڈی این اے لے کر پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی جواز دینے والا پہلا ملک ہوگا۔
الانا کی ماں دس سال تک ماں بننے کی کوشش کرتی رہیں
دراصل الانا کی ماں شیرن سارينین دس سال سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تکنیک سے ماں بننے کی کوشش کر رہی تھی۔
شیرون کہتی ہیں: ’مجھے احساس جرم ہو رہا تھا کہ میں اپنے شوہر کو بچہ نہیں دے پا رہی ہوں۔ میں سو نہیں سکتی تھی اور یہ بات 24 گھنٹے میرے دماغ میں چھائی رہتی تھی۔‘
امریکہ کی ریاست نیو جرسی میں ڈاکٹر جيکس کوہن نے ایک عورت کے سائٹوپلاسم کو شیرن کے بیضے میں منتقل کیا۔ اس کے بعد اسے اس کے شوہر کے نطفے کے ساتھ فرٹیلائز کیا گیا۔
اس عمل کے دوران کچھ ماٹوكنڈريا بھی منتقل ہوا اور اس خاتون کا کچھ ڈي این اے بھی جنین میں پہنچ گیا۔
شیرون کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی الانا صحت مند اور دیگر لڑکیوں کی طرح ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’میں اس سے بہتر بچے کی خواہش نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ خوبصورت ہے اسے ریاضی اور سائنس پسند ہیں۔ جب وہ پڑھ نہیں رہی ہوتی ہے تو گھر کے کام میں میری مدد کرتی ہے۔‘
شیرن کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی الانا صحت مند اور دیگر لڑکیوں کی طرح ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post