'You come to school to prostitution' ’تم سکول میں جسم فروشی کے لیے آتی ہو‘



چھ ماہ سے دنیا ان 200 سے زائد لڑکیوں کا انتظار کر رہی ہے جنھیں نائجیریا کے شدت پسند گروہ بوکو حرام نے اغوا کیا تھا۔
ادھر نائجیریا کی حکومت اصرار کر رہی ہے کہ ان لڑکیوں کی رہائی کے متعلق مذاکرات ہو رہے ہیں۔ بی بی سی ہاؤسا نے ان چند لڑکیوں سے بات کی ہے جو اغوا کاروں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔
لامی، ماریہ اور ہاجرہ اپریل میں نائجیریا کے شمال مشرقی شہر چبوک کے سکول سے اغوا کیا گیا۔ لامی اور ماریہ نے، جو کہ پکی سہیلیاں بھی ہیں، چلتے ٹرک سے کود کر جان بچائی۔ جبکہ ہاجرہ کیمپ پہنچنے کے بعد ایک اور لڑکی کے ہمراہ بھاگنے میں کامیاب ہوئی۔
ان لڑکیوں کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
لامی: وہ پیر کی رات تھی۔ اگلے روز ہمارا امتحان تھا۔ اس کے بعد ہم نے شہر میں گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ ہم باہر نکل گئے اور اپنے والدین کو فون کیے تاکہ انھیں بتائیں کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ جیسے ہی موقع ملے بھاگ جاؤ۔ ہم نے انھیں بتایا کہ شہر کو پہلے ہی گھیرے میں لے لیا گیا ہے، اس لیے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ماریہ: لامی نے مجھے یہ کہتے ہوئے اٹھایا: ’ماریہ تم نے نہیں سنا کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا تم نے شہر میں گولیوں کی آوازیں نہیں سنی ہیں؟‘
میں نے کہا کہ ’ہم دیوار پھلانگ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ہم ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔‘
دوسری لڑکیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں ہو گا: ’ہم لڑکیاں ہیں۔ وہ لڑکیوں کو کچھ نہیں کہتے۔ ہم انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خدا کیا کرتا ہے۔‘
اینیمیشن
لڑکیوں کو ٹرکوں میں لادا گیا اور کئی کو گاڑیوں کی ڈکیوں میں بند کیا گیا
لامی: ’ہم اس وقت سکول ہی میں تھیں جب بوکو حرام کے تین رکن اندر داخل ہوئے۔
’انھوں نے کہا کہ ’’اگر بھاگنے کی کوشش کی تو ہم آپ سب کو مار دیں گے۔‘‘ جب ہم باہر نکلے تو وہ ہر جگہ موجود تھے۔ انھوں نے ہمیں ہماری سکول کی اسمبلی گراؤنڈ میں اکٹھا کیا۔ ابھی ہم وہاں ہی تھے کہ انھوں نے ہمارے سکول کو جلانا شروع کر دیا۔ انھوں نے سب کچھ جلا دیا۔
ہاجرہ: انھوں نے ہمیں کہا کہ ہم گیٹ سے باہر نکل جائیں، وہ کہہ رہے تھے کہ جب ہم باہر نکل جائیں گے تو وہ ہمیں ہمارے گھروں کو جانے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جس کے پاس بھی سر پر پہننے والا سکارف یا جوتے نہیں ہیں وہ جا کے لے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں ایک ٹرک میں بیٹھنے کو کہا جس کے اندر پہلے ہی خوراک کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ ہم اس پر بیٹھ گئیں۔ یہ ٹرک اتنا اونچا تھا کہ ہم بڑی مشکل سے اس پر چڑھے۔
ماریہ: ’انھوں نے ہم سے کہا کہ ’’تم سکول میں صرف جسم فروشی کے لیے آتی ہو۔ بوکو (مغربی تعلیم) حرام ہے، تو پھر تم سکول میں کیا کر رہی ہو؟‘‘
’ہم چپ رہیں۔ میرے خیال میں وہاں بوکو حرام کے سو کے قریب رکن موجود تھے۔ وہ سکول میں ہر جانب تھے۔ ہم سے بہت زیادہ تعداد میں۔ وہ ہمیں اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر لے گئے۔ ہم تیل کے ڈرموں پر بیٹھے تھے۔ ہماری گاڑی ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی تھی۔ ہم ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں اپنے جوتے اور سکارف پھینک دینے چاہییں تاکہ جب ہمارے والدین ہمیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں تو انھیں پتا چل جائے کہ ہمیں کہاں لے جایا گیا ہے۔‘
ہاجرہ: ’جب میرے چڑھنے کی باری آئی تو گاڑی بھر چکی تھی۔ سو ہم میں سے تقریباً سو کے قریب کو پیدل چلنا پڑا۔ ہم ایک شہر میں پہنچے اور لوگوں نے ہمیں پانی پلایا۔ میں نے دیکھا کہ ایک پانی پلانے والے نے کپڑے بدلے اور بوکو حرام کے لوگوں میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں گاڑیوں میں بٹھا دیا۔ جو باقی بچیں انھیں گاڑیوں کی ڈکیوں میں ڈال دیا گیا۔
’بوکو حرام کے اراکین میں سے کئی اتنے چھوٹے تھے کہ اگر میں ان کی گردن پکڑتی تو شاید توڑ ہی دیتی۔ کئی ایک کو تو بندوقیں پکڑنا بھی نہیں آتی تھیں۔‘
ماریہ: ہم سوچ رہی تھیں کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ جب ہم گاڑی میں داخل ہوئیں تو لامی نے مجھ سے کہا: ’’کیوں نہ ہم گاڑی سے چھلانگ دیں، ہو سکتا ہے کہ ہم فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں؟ ہمارے قریب اور کوئی گاڑیاں نہیں ہیں۔‘‘

بھاگنے والی لڑکیوں کو اب بھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں کہ بوکو حرام والے ان کو پکڑنے کے لیے دوبارہ آ جائیں گے
ہاجرہ: ’میں نے سوچا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے بھاگتے ہوئے گولی مار دیں۔ وہ بار بار ہمیں کہہ رہے تھے، ’’خیال رہے کہ آپ کے سکارف آپ کے سروں پر رہیں۔ خیال رہے کہ آپ کے سکارف آپ کے سروں پر رہیں۔ اگر ہمیں کوئی لڑکی سکارف کے بغیر نظر آئی تو ہم اسے گولی مار دیں گے۔ اور جس لڑکی نے بھی باہر چھلانگ لگانے کی کوشش کی وہ مر جائے گی۔‘‘
’میں ابھی چھلانگ لگانے ہی والی تھی کہ ایک لڑکی نے مجھے روک دیا اور کہا اگر میں نے ایسا کیا تو وہ مجھے گولی مار دیں گے۔ میں نے کہا کہ ’’کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا ہم موت کے منہ میں ہی نہیں جا رہے؟ وہ مجھے یہاں گولی مار دیں تاکہ کم از کم میری لاش تو مل جائے گی۔‘‘
’جب ہم کیمپ پہنچے تو میں رو رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی۔‘
لامی: ’سڑک پر بہت مٹی تھی۔ وہ ہمیں نہیں دیکھ سکے۔ ہم چھلانگیں لگانے کے بعد فوراً بھاگنے لگے۔ ہم جوتوں کے بغیر بھاگ رہے تھے۔ ہم نے اور لوگ بھی دیکھے۔ ہم ان سے بھی چھپ کر بھاگنے لگے، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید یہ بھی بوکو حرام والے ہیں۔ لیکن وہ بھی شہر سے بھاگے ہوئے لوگ تھے۔‘
ہاجرہ: ’بوکو حرام نے دوپہر کے قریب ہمیں ایک جنگل میں اکٹھا کیا۔ کچھ لڑکیاں تھکن سے نڈھال ہو کر لیٹ گئیں۔ لیکن میں نہ لیٹ سکی۔ کوئی خدائی روح مجھے کہہ رہی تھی کہ بھاگ جاؤ۔ وہ مجھے کہہ رہی تھی: ’’اٹھو اور بھاگو۔ اٹھو اور بھاگو۔‘‘
’سو میں بھاگ گئی۔ ایک اور لڑکی میرے پیچھے چل پڑی۔ جب ہم جا رہی تھیں تو ہم نے دیکھا کہ بوکو حرام والے وضو کر رہے تھے۔ ہم رک کر ایسا دکھاوا کرنے لگیں کہ جیسے ہم اپنے جوتوں سے کانٹے نکال رہی ہیں، جیسا کہ ہم پیشاب کرنے جا رہی ہیں۔ ہم تھوڑا چلتی اور پھر جھک جاتی جیسا کہ ہم کوئی کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈ رہی ہیں۔
’تھوڑا چلنے کے بعد ہم ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے کیونکہ اب جنگل آ گیا تھا۔ اس کے بعد ہم بھاگنے لگیں۔ ابھی ہم تھوڑا دور ہی گئی تھیں کہ ہم نے انھیں کہتے سنا کہ ’’ان لڑکیوں کو پکڑو۔‘‘ ہم بھاگتی رہیں۔ وہ ہمارے پیچھے آئے کہ نہیں، یہ ہمیں نہیں معلوم۔‘
ہاجرہ: ’ہم بھاگتی رہیں اور ہمارے جوتے پھٹ گئے۔ ہمیں ایک گھر نظر آیا جہاں ایک لڑکی ہاؤسا بولتی تھی۔ اس کے والدین نے ہمیں سونے کی جگہ دی۔ ہم صبح کے وقت چنوک کے علاقے میں پہنچیں۔ ایک شخص جو لاپتہ لڑکیوں کو ڈھونڈ رہا تھا ہمیں موٹر سائیکل پر بٹھا کر شہر میں لایا۔
’جب میں نے اپنے بڑے اور چھوٹے بھائی کو دیکھا تو میں زمین پر گر کر رونے لگی۔ میری ماں اور میرا باپ بھی رو رہے تھے اور سبھی گھر والے رو پڑے۔ میرے گھر میں پہنچنے سے پہلے ہمارے گھر میں موت کا سا سماں تھا۔ دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لوگ یہ سمجھ کر کہ میں مر چکی ہوں میری ماں اور باپ سے تعزیت کر رہے تھے۔‘
لامی: ’جن لوگوں سے ہم ملے انھوں نے ہمیں کہا کہ ’’آپ کا شہر بہت دور ہے۔ آپ وہاں نہیں جا سکتے۔ صبح تک انتظار کریں تاکہ ہم شہر جا کر آپ کے لیے کوئی گاڑی لا سکیں جو آپ کو گھر واپس لے جائے۔‘‘ ہم وہاں صبح تک رہے، جب انھوں نے ہمیں کہا کہ اب اٹھ جائیں تاکہ ہم آپ کو شہر لے جائیں۔ ہم چل نہیں سکتی تھیں۔ ہمارے پاؤں کانٹوں سے چھلنی تھے۔‘
نائجیریا
بچیوں کے اغوا نے کئی گھرانے تباہ کر دیے ہیں اور والدین بہت پریشانی کے عالم میں جی رہے ہیں
ماریہ: ’جن لوگوں نے ہمارے مدد کی تھی وہ ہی ہمیں چبوک تک لے کر آئے۔ میں رونے لگی۔ میرے ساتھ ایسا دوسری مرتبہ ہوا تھا۔ میرے والد پادری تھے۔ بوکو حرام والے ہمارے گھر آئے اور انھیں مار دیا۔ انھوں نے میری ماں کو بھی پیٹ میں گولی ماری تھی۔‘
لامی: ’میرے والدین نے پانی گرم کیا اور میرے پیروں کو مرہم لگایا۔ مجھے ہسپتال لے جایا گیا اور دو ہفتوں کے بعد میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوئی۔‘
ماریہ: ’میں اس ڈر میں جیتی ہوں کہ بوکو حرام کے لوگ مجھے پکڑنے کے لیے آئیں گے۔ میں سو نہیں سکتی۔‘
ہاجرہ: ’مجھے روز ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ ایک روز مجھے یہ خواب بھی آیا کہ انھوں نے سب بھاگنے والی لڑکیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور ہم سے کہا: ’’تم لڑکیوں نے ہمارا کہنا نہیں مانا تھا اور بھاگ گئی تھیں۔ اب ہم تو کو زندہ جلا دیں گے۔‘‘
’میں ان لڑکیوں کو نہیں بھولی جو اب تک ان کے قبضے میں ہیں۔ میں روز ان کے لیے دعا مانگتی ہوں۔‘
لامی: ’خدا ہمیں کبھی ان لوگوں سے دوبارہ نہ ملوائے۔ اور ہماری جو بہنیں اب تک جنگل میں ہیں خدا ان کی مدد کرے۔ اور پوری دنیا مل کر ان لوگوں کی بازیابی کے لیے کوشش کرے تاکہ ہم سب سکول میں اپنی تعلیم دوبارہ مکمل کر سکیں۔‘
اینیمیشن
لڑکیوں کی سامنے ہی ان کے سکول کو خاکستر کر دیا گیا
ماریہ: ’ان کو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی چاہیے۔ میں ان سے یہ بھی التجا کروں گی کہ وہ ان لڑکیوں کو واپس لے آئیں جنھیں انھوں نے اغوا کیا تھا کیونکہ ان کے والدین بہت پریشانی میں ہیں۔ کچھ لڑکیوں کے والدین مر چکے ہیں۔ یہ ان کی لڑکیوں کا خیال ہی تھا جو ان کی جان لے گیا۔‘
ہاجرہ: ’خدا کو جو کرنا ہے وہ کرے گا، لیکن انھوں نے جو میری زندگی کے ساتھ کیا ہے اس وجہ سے میں انھیں دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے مجھے تباہ کر دیا، لیکن خدا کی رضا سے وہ مجھے تباہ نہیں کر سکے۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گی۔‘

Post a Comment

Previous Post Next Post