Autumn season – and risks of allergy



موسم خزاں سے پہلے ہونے والی سب سے عام الرجی Ragweed یا امبروشیا کی مرکب نسل کے دو پودوں سے پھیلتی ہے، جو اگست کے وسط سے لے کر اکتوبر کے اوائل تک ایک زیرہ دان سے دوسرے زیرہ دان تک منتقل کئے جاتے ہیں۔


عموماً الرجی اور Hey Fever کا تعلق موسم بہار اور خاص قسم کے درختوں کی وجہ سے انسانی جسم میں پائی جانے والی حساسیت سے ہوتا ہے- Hey Fever جسے تپ کاہی کہتے ہیں اور جو پودوں کے زردانے سے ہونے والی حساسیت سے ہوتا ہے، کی علامت ناک کی سوزش اور پھر تیز بخار ہوتا ہے-

تاہم الرجی محض بہار کی آمد کے وقت ہی نہیں ہوتی بلکہ موسمی الرجی خزاں کا موسم شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے سے بھی حملہ آور ہو جاتی ہے- الرجی پیدا کرنے والے ’الرجنز‘ یا ایجنٹس گھاس اور درختوں سے ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں- نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ماہرین کے مطابق یہ ایجنٹس انسانوں کے ناک، کان، آنکھوں اور منہ میں داخل ہو کر جسم میں خاص طرح کے اثرات کا سبب بنتے ہیں۔ الرجنز کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اور یہ مختلف اعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیں-

ناک اور گلے کی خراش اور چھینکیں، الرجی کی عام علامات

موسم خزاں سے پہلے ہونے والی الرجی یورپ اور امریکہ میں بہت عام ہے- امیونولوجی اور دمے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ الرجی کی اس قسم کی علامات میں چھینکیں آنا، ناک سے پانی بہنا اور آنکھوں اور ناک میں خارش ہونا شامل ہیں- خزاں میں پھپھوندی کے نباتاتی تولیدی خلیے یا ذرے بھی فضا میں تیزی سے پھیلتے ہیں- الرجی اور دمے کے ماہرین کے مطابق خزاں کے موسم میں درختوں اور پودوں سے جھڑنے والے پتے پھپھوندی کے نباتاتی ذرات بہت وسیع علاقے میں بکھیر دیتے ہیں اور یہ ان لوگوں کے لئے بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں جو الرجی کا شکار ہوتے ہیں- اس سے سانس کی گونا گوں بیماریاں پیدا ہو جاتی ہے-

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ خزاں کے موسم کو وائرس کا موسم بھی کہا جاتا ہے- اس میں کھانسی اور نزلے زکام کا غلبہ رہتا ہے اور یہ ساری صورتحال اس لئے پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ یہ تمام عارضے ایک ہی وقت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ علامات الرجی کی ہیں یا وائرل انفیکشن یعنی فلو کی۔

خزاں میں ہر طرف نظر آنے والے مخصوص پتے اور خاص قسم کا چھلکوں والا بادام


ماہرین کا کہنا ہے کہ خزاں کے موسم میں الرجی اور وائرس سے بچنے کے لئے گھر میں بند رہنا بھی صحت کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ گھر کے اندر نمی کی کمی پائی جاتی ہے جس سے پھیپھڑوں اور ناک میں پائی جانے والی الرجی مزید خراب شکل اختیار کر سکتی ہے- ہوا میں نمی کی کمی، میوکس ممبرین یا وہ جھلی، جس سے منہ، ناک اور آنتوں کے اندر لعاب خارج ہوتا ہے، کو خشک کر دیتی ہے- اس طرح ان اعضاء میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے- دوسری جانب ٹھنڈی یخ اور خشک ہوا ناک کی اندرونی جھلی کے سوجنے کا سبب بنتی ہے، جس سے ناک میں گھٹن کا احساس بہت شدید ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر میں ناک بہنا شروع ہو جاتی ہے-


دمے کا مرض زیادہ بڑھ جائے تو سانس کی تکلیف دور کرنے کے لئے پمپ استعمال کرنا پڑتا ہے

خزاں کے موسم میں الرجی اور فلو سے بچنے کی ترکیب:

کمرے میں 35 سے 50 فیصد تک نمی ہونی چاہئے- اس لئے کہ عام گھروں اور دفتروں میں نمی کی عموعی شرح محض 16 فیصد ہوتی ہے- ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس موسم میں کمرے میں نمی کو ناپنے والا آلہ، جسے ہائگرو میٹر بھی کہتے ہیں، استعمال کرنا چاہئے- نمی کی مطلوبہ شرح نہ ہو تو کمرے میں ’ہیو میڈیفائر‘ لگانا چاہئے- جن کمروں میں ہیٹر لگے ہوں، وہاں کسی گہرے پیالے میں پانی بھر کر رکھنے سے نمی پیدا ہوتی ہے- اس کے علاوہ گھروں کو گرد سے پاک رکھنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے- 

Source: DW Urdu

Post a Comment

Previous Post Next Post