نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں
جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے
سب اُن کو سنانے کے دن آرہے ہیں
ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو
کہ لٹنے لٹانے کے دن آرہے ہیں
ٹپکنے لگی اُن نگاہوں سے مستی
نگاہیں چرانے کے دن آرہے ہیں
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں
چلو فیض پھر سے کہیں دل لگائیں
سنا ہے ٹھکانے کے دن آرہے ہیں
فیض احمد فیض (1984-1911)
Post a Comment