Quetta - Six year old girl raped and strangled to death



ڈان نیوز: بلوچستان میں پولیس ایک چھ سالہ بچی کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے جسے مبینہ طور پر ریپ کی کوشش کے بعد گلا گونٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا ۔

بلوچستان کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی چھ سالہ سحر بتول کی لاش 29 اکتوبر کو یعنی گذشتہ بدھ کو کوئٹہ کے علاقے زرغون روڈ سے ملی تھا تاہم ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پولیس کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

بلوچستان کی ہزارہ برادری کے زیادہ تر افراد شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں متعدد مرتبہ شدت پسند بم دھماکوں اور فائرنگ کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

کوئٹہ پولیس کے چیف عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ مقتولہ، جس کے والد آرمی کے علاقے میں مالی کا کام کرتے ہیں، کی لاش ان کے گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔

چیمہ کے مطابق بچی کو پھندہ لگا قتل کیا گیا۔

پولیس چیف کا کہنا ہے کہ بچی کے جسم پر خراشوں کے نشانات بھی ملے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا ریپ کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

غم سے نڈھال لڑکی کی والدہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کسی سے بھی دشمنی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اس دن میری بیٹی گھر کے قریب ہی کچرہ پھینکنے گئی تھی مگر وہ واپس نہ لوٹی، میں اس کی تلاش میں گئی مگر وہ نہ ملی'۔

بعد ازاں بی بی کو اس کی پڑوسن نے بتایا کہ اس کی بیٹی کچرے میں پڑی ہے۔

بی بی کا کہنا ہے کہ 'وہ اس وقت تک مر چکی تھی اور اس کے ناک اور منہ سے خون نکل رہا تھا اور پورے جسم پر خراشیں تھیں'۔

چار ماہ قبل ہی کوئٹہ کے زرغون روڈ پر اپنی رہائش منتقل کرنے والے لڑکی کے والد نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی بیٹی کے قاتلوں کو انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی نہ تو کسی کے ساتھ دشمنی ہے اور نہ ہی انہیں کسی پر شک ہے۔ ' ہمیں اللہ انصاف فراہم کرے گا اور میں صرف قاتلوں کی جلد گرفتاری کی دعا کر سکتا ہوں'۔

اس واقعے کے بعد علاقے کی فضا کو خوف نے جھکڑ لیا ہے اور لوگوں نے اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے بھی منع کر دیا ہے۔

رزاق چیمہ نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس تاحال سحر کے قاتلوں تک رسائی میں ناکام ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سی آئی اے اور پولیس کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم اس قتل کی تحقیقات میں مصروف ہے ۔

پولیس نے اس واقعے کے پیچھے فرقہ واریت کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں تاہم ان کا کام صرف مجرموں تک پہنچنا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post