سب لوگ لئے سنگ ملامت نکل آئے
کس شہر میں ہم اہل محبت نکل آئے
اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے
ہر گھر کا دیا گل نہ کرو تم کے نہ جانے
کس بام سے خورشید قیامت نکل آئے
جو در پاٴ پندار ہیں ان قتل گاہوں سے
جاں دی کے بھی سمجھو کے سلامت نکل آئے
اے ہمنفسوں کچھ تو کہو عہد ستم کی
اک حرف سے ممکن ہے حکایت نکل آئے
یارو مجھےمصلوب کرو تم کے میرے بعد
شائد کے تمہارا قد و قامت نکل آئے
شعروسخن: احمد فراز (1931-2008)
Post a Comment