’ کوئی پاکستانی امریکہ پر اعتبار نہیں کرتا‘
ان مسائل سے پاکستان اور افغانستان دونوں پر اثر پڑتا ہے۔ اِس لیے، حالات پر قابو پانے میں فرق آ جاتا ہے۔ جب مسائل سے نمٹنے کا وقت آتا ہے تو اختلافات سامنے آنے لگتے ہیں جب آپ لوگ، یعنی مغربی طاقتیں، چھوٹے چھوٹے معاملات اور طریقۂ کار میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پرویز مشرف
پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ اور ملک کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی امریکہ کو قابلِ اعتبار اتحادی تسلیم نہیں کرتا۔
بدھ کی شب بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے اپنے طریقے سے نمٹ رہا ہے اور جب تک دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ساتھ لڑنی ہے، تب تک اس کی حکمتِ عملی کو پاکستان پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
پاکستان میں دو روز قبل پشاور میں طالبان کے حملے میں 132 بچوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی شدت پسندوں سے لڑنے کی صلاحیت کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث آیا ہے۔
اس حملے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچانے اور اچھے یا برے طالبان کی تمیز نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جنرل مشرف نے کہا کہ ’میں کہوں گا کہ اتنے برسوں میں جو میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان کو ایک قابلِ اعتبار اتحادی نہیں سمجھا جاتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ہم امریکہ کو بہت قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے۔ یہ ہر پاکستانی کی رائے ہے۔‘
ان مسائل سے پاکستان اور افغانستان دونوں پر اثر پڑتا ہے۔ اِس لیے، حالات پر قابو پانے میں فرق آ جاتا ہے۔ جب مسائل سے نمٹنے کا وقت آتا ہے تو اختلافات سامنے آنے لگتے ہیں جب آپ لوگ، یعنی مغربی طاقتیں، چھوٹے چھوٹے معاملات اور طریقۂ کار میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
پرویز مشرف
ان کا کہنا تھا کہ مغرب کے پاس’افغانستان کے مسئلے سے نمٹنے کا اپنا طریقہ ہے اور ہمارے پاس مسائل سے نمٹنے کا اپنا طریقہ ہے چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں۔‘
سابق صدر نے کہا کہ ’ان مسائل سے پاکستان اور افغانستان دونوں پر اثر پڑتا ہے۔ اِس لیے، حالات پر قابو پانے میں فرق آ جاتا ہے۔ جب مسائل سے نمٹنے کا وقت آتا ہے تو اختلافات سامنے آنے لگتے ہیں جب آپ لوگ، یعنی مغربی طاقتیں، چھوٹے چھوٹے معاملات اور طریقۂ کار میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے مغربی ممالک پاکستان کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے اس لیے ’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے سٹریٹجک سطح پر ساتھ ہیں۔ طریقۂ کار ہمیں ہی طے کرنے دیں۔‘
پرویز مشرف نے کہا کہ ہر ملک کے مسائل اور اندرونی صورتحال مختلف ہوتی ہے اور شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسے مدِنظر رکھنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں مغرب میں وہ جو اس صورتحال سے براہ راست متعلق یا پوری طرح باخبر نہیں، سمجھتے ہیں کہ سب ڈبل گیم کھیل رہے ہیں لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔‘
’ہم تو صورتحال سے دستیاب وسائل کی مدد سے ہر ممکن طریقے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ بی بی سی اردو
Post a Comment