Pakistan ka masla, #Pakistani qaum - by Manzoor Ahmed


مَیں نے دانستہ پاکستانی قوم نہیں لکھا۔ ابھی تک ہم پاکستانی قوم کہاں بنے ہیں۔ مملکتِ خدا داد تو 14 اگست 1947ء میں عالمِ وجود میں آگئی تھی، جس کو ہم نے غلط طور پر یا کم علمی کی وجہ سے یومِ آزادی کا نام دے دیا۔ 14 اِگست 1947ء سے پہلے پاکستانی State کوئی وجود ہی نہیں رکھتی تھی پھر آزادی کہاں سے آ گئی۔ 14اِگست تو یومِ استقلال تھا۔ پاکستان کا Foundation Day تھا۔ یومِ استقلال والے دن ہمارے بڑوں نے اس خطے میں رہنے والی دس، بارہ قوموں کو ایک تجریدی تصّورِ قومیت کی لڑی میں پَروکر پاکستانی قوم کا نام دے دیا جو دراصل 14اِگست 1947ء سے پہلے بھی کوئی وجود نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی اب رکھتی ہے۔ ہم بلوچوں، پختونوں، ہزارہ نسل کے لوگوں کو، براھویوں کو، سرائیکیوں کو، پوٹھو ہاریوں کو، پنجابیوں کو ،سندھیوں کو اور بنگالیوں کو کس بنیاد پر مجبور کر سکتے تھے کہ وہ یکایک پاکستانی قوم بن گئے ہیں۔ سوائے اسلام اور خورد و نونش کی چیزوں کے حرام یا حلال ہونے کے علاوہ ان قومیتوں میں کوئی چیز بھی تو قدرِ مشترک نہ تھی۔ نہ زبان، نہ رہن سہن، نہ کلچر نہ کھانے پینے کی عادتیں۔ یہاں تک کہ تصّورِ دین کے حوالے سے بھی اختلافات تھے اور ہیں ۔ یہی تو وجہ ہے کہ 1970ء میں ایک جرنیل نوابزادہ شیر علی خان آف پٹودی کو اور جماعت اسلامی کو نظریہ پاکستان کے تصّور کو مقبول بنانے کا خیال آیا۔ 44 سال گزرنے کے باوجود ہم نظریہ پاکستان کا لبادہ بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کو نہیں پہنا سکے۔ دراصل پاکستان کی تشکیل سے پہلے ہی کچھ Confusions پیدا کر دیئے گئے تھے۔ پاکستان کو بنانے والے لیڈر مسلمان ضرور تھے اور مسلمانوں کی بہبود کو مدِ نظر رکھ کر انہوں نے اس ملک کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، مگر درمیان میں ایک جوشیلے مقامی لیڈر پیر جماعت علی شاہ نے نعرہ لگا دیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ ۔ اس نعرہ نے عام مسلمانوں میں وقتی مقبولیت بھی حاصل کی، لیکن یہ ہی نعرہ سیاسی مولویوں کا بڑا ہتھیار بن گیا۔ کہاں تو پاکستان مسلمانوں کی فلاح اور بہبود کے لئے بن رہا تھا اور کسی بھی صورت میں قائداعظمؒ اس ملک کو ایک مذہبی ریاست (Theocracy) بنانے کا اِرادہ نہیں رکھتے تھے اور کہاں عوام میں مولویوں نے یہ گمان پھیلا دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بدگمانی کی بنا پر بہت سی مذہبی جماعتیں بن گئیں۔ اسلام کے لئے یا مسلمانوں کی فلاح کے لئے تو یہ جماعتیں کچھ نہ کر سکیں البتہ پاکستان کو مسلکی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ہمارے اَن پڑھ قصباتی عوام جو صدیوں سے اپنے وڈیروں ، مخدوموں ، پیروں اور قبیلے کے سرداروں کے رحم و کرم پر ہیں، اِن غریبوں کی اکثریت کو کلمہ تک پڑھنا نہیں آتا، طہارت کا تو کوئی تصّور ہی نہیں ہے۔ اِن کی عورتوں کی عزتیں زمانہ ماضی میں لٹ جاتی تھیں تو پتہ بھی نہ چلتا تھا البتہ میڈیا کے عام ہونے سے گاہے گاہے عورتوں پر ظلم و ستم کی خبریں مل جاتی ہیں، جس ملک کے عوام کی اکثریت اپنے دماغ سے نہ سوچتی ہو، بلکہ جو سائیں ، سردار اور وڈیرے نے کہہ دیا، وہ ہی عوام کی سوچ بن جائے تو وہاں جمہوریت کس طرح آ سکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغربی طرز کی کوئی بھی جمہوریت پاکستان کے عوام اور پاکستان کے اکابر دونوں کے لئے یہ نا قابل ِ عمل ہے۔ آپ خربوزے کی بیل سے انگور حاصل نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا مسئلہ یہاں کے عوام ہیں جو نہ خود جمہوریت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اِن کے لیڈر جمہوریت پسند ہیں۔ صرف اقتدار میں آنے کے لئے جمہوریت کا جھنجھناعوام کو پکڑا دیتے ہیں اور جب عوام کو پاکستانی برانڈ جمہوریت سے کوئی پھل نہیں ملتا تو وہ شور و غوغا کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر اپنا کردار، بطور ایک ایماندار ووٹر، ادا نہیں کرتے۔ ہم پاکستانی عوام کیا شہری اور کیا دیہاتی، نعروں کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

مَیں آپ کو ایک غیر سیاسی، لیکن بڑی دلچسپ مثال دیتا ہوں ان پاکستانی عوام کے بارے میں یہ 50 اور 60کی دھائی کی بات ہے۔ اُردو زبان کو مقبول بنانے کے لئے اُردو کے اربابِ بست وکشاد نے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں اُردو بولو، اُردو لکھو کی مہم چلائی۔ بڑے بڑے جغا دری اُردو دان اس مہم کے روحِ رواں تھے۔ مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سیدّ عبداللہ ، ڈاکٹر عابد علی، ڈاکٹر وقار عظیم اور ڈاکٹر عبادت یارخان۔ یہ سب اُردو کے محترم اُستاد تھے اور غالباً اپنے مقصد میں مخلص تھے۔ بڑی بھاگ دوڑ کی اِن لوگوں نے ، سڑکوں کے پُرانے مانوس نام نہ صرف مشرف بہ اسلام کئے گئے، بلکہ اُردو میں اُن کے نام لکھوائے گئے۔ دکانوں کے بورڈ اُردو میں لکھوائے گئے، لیکن اُن دکانوں کے نام انگریزی نما ہی رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے اُردو کے لئے جد و جہد ہی کرتے رہے، لیکن انہوں نے ایک اہم چیز دھیان میں نہیں رکھی، وہ تھا عوام کا مزاج جو اس اصلاحی، لیکن بے وقت کی مہم کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا، پرانی سڑکوں کے طویل نام لوگوں کی زبان پر نہ چڑھ سکے۔ اُردو میں بورڈ لکھوا تو لئے، لیکن ’’ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ‘‘ کا نہ اُردو ترجمہ کر سکے اور نہ ہی اُس کے انگریزی زدہ لوگو (Logo) کو اُردو کا رُوپ دے سکے۔ یہ ہی مہم ہندوستان میں ہندی کو مقبول بنانے کے لئے ہندو پنڈتوں نے شروع کی۔ وہ اس لئے مقبول ہوئی کہ عوام بھی مزاجاً تیار تھے اور اُن کی سنسکرت زدہ ہندی میں سڑکوں اور دکانوں کے بورڈز کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت تھی، Book Depot کو پُستک بھنڈار کہا جانے لگا ، نئی سڑکوں کو مارگ کہا جانے لگا، لیکن پرانی سڑکوں کے نام قدیم ہی رہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام اگر کسی سدھار کے لئے تیار ہوں گے تو کوئی بھی اصلاحی مہم کامیاب ہوگی۔




ہم پاکستان کے سیاسی مسئلوں کو ایسی جمہوریت سے چلانا چاہتے ہیں ،جو اس سر زمین پر نمونہیں پا سکتی ۔ کسی فصل کو اُگانے کے لئے زمین کی خاصیت دیکھنی پڑتی ہے، جس کے مطابق کھاد اور بیج کا چناو کیا جاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح ہم نے جمہوریت اپنی سر زمین کے مطابق ڈھالنی ہے۔ برطانوی برانڈ جمہوریت کبھی کامیاب ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کی وجوہات جاننا ضروری ہے۔ ہمارے اکثر عوام نسلی طور پر جذباتی ، بامرّوت ، انتقامی ، حریص اور طاقتور سے خوف کھانے والے ہیں۔ ان کے جذبات کو بھڑکا کر سڑکوں پر لایا جا سکتا ہے، ان سے دھرنے دلوائے جا سکتے ہیں اور جذباتی بلیک میل کے ذریعے ان سے ووٹ بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے عوام مروّت اور لحاظ داری میں اتنی دور جا سکتے ہیں کہ یہ کسی بھی نا اہل اور بے ایمان اُمیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ انتقام اور حرص کے عناصر ہماری لڑکھڑاتی جمہوریت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انتخابات کے دِنوں میں ووٹروں کو چھوٹے چھوٹے لالچ دے کر اُن کا ووٹ خریدا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء نے غیر جماعتی انتخابات کروا کر برادری اور قبائلی عفریت کو جِلابخشی تھی۔ ہمارے دیہاتوں میں برادری اور قبائلی تنازعات بہت جلد خون خرابے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے عوام بھی اِن جھگڑوں میں ملّوث ہو جاتے ہیں اور پھر یہ ہی تنازعے سیاست کو اِنتقامی بنا دیتے ہیں، چونکہ مَیں اپنے کسی گزشتہ مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ برصغیراور پاکستان کے اکثر مسلمان کمزور اور مغلوب ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہی ہمارے زیادہ ووٹر بھی ہیں اِن کمزور ووٹروں پر جب بڑی ذاتوں والے ذراُ ونچی آواز میں بات کرتے ہیں تو اُن کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ اُن گُجروں، جٹوں، کھوکھروں اور چودھریوں کی مرضی کے خلاف ووٹ دے سکیں۔ ایسے ووٹر انگریزی زبان میں(Captive voter) کہلاتے ہیں ۔ 1970ء سے پہلے اپنے ناموں کے آخرمیں گجر، جٹ، آرائیں لکھنے کا رواج نہیں تھا۔ یہ تحفہ ہمیں جنرل ضیاء نے دیا۔




جہاں ہمارے عوام میں بطور ووٹر بنیادی کمزوریاں ہیں وہاں ہمارا آئین بھی حالات کی مناسبت سے تشکیل نہیں دیا گیا۔ آئین کی شق 62 - 63 پر تو شائد 2 سے 5فیصد پاکستانی پورے اُترتے ہوں۔ پاکستان کے جمہوری نظام کو اسلامی قوانین کے تابع کیا جانے کی وجہ سے مغربی جمہوریت کا تصّور پنپ ہی نہیں سکتا۔ جب ہم آئین کی شق 62 - 63 پر عمل نہیں کروا سکتے اور جب ہم Rule of majority یعنی، اکثریت کی حکمرانی کو اسلامی قوانین کی موجودگی میں رائج نہیں کر سکتے، تو پھر ہمیں جمہوریت کا نام لیتے ہوئے غور کرنا چاہے کہ کیا کلاسیکی جمہوریت ، ہمارے مزاج ، ہماری ریت و رواج ، ہمارے آئین اور ہماری معاشرتی زندگی سے ہم آھنگ ہو سکتی ہے، چونکہ پاکستانی مملکت (State) کا مذہب اسلام ہے، اس لئے روائتی یا مغربی اسٹائل کی جمہوریت ملک میں اِنتشار ہی پھیلائے گی ۔ ہمارے عوام اپنے سے طاقتور کا ظلم سہنے کے عادی ہیں۔ شہری اور قصباتی عوام تو پھر بھی کچھ سیاسی شعور رکھتے ہیں ، لیکن ہمارے دیہی عوام تو کبھی بھی مروّت ، جذبات، حِرص اور خوف کے چُنگل سے باہر آہی نہیں سکتے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ ہی ہمارے عوام ہیں، کیونکہ انہوں نے ہی اُمیدواروں کو سیاسی اتھارٹی دینی ہوتی ہے۔ اچھے اور مقابلتاً ایماندار ارکانِ اسمبلی بہتر قوانین بنا سکتے ہیں۔ اپنی اہلیت اور قابلیت سے کرپٹ ہتھکنڈوں کا توڑ کر سکتے ہیں۔ ٹیکس کا نظام بہتر کر سکتے ہیں۔ معیشت ٹھیک کر سکتے ہیں۔ غرض کہ حکومتی مشینری کو خوب تر چلانے کے لئے عوام ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ نا اہل عوام ہی دراصل پاکستان کا گھمبیر مسئلہ ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے ہم لاکھ اختلاف کر لیں، لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے سوئے ہوئے عوام کو ان دونوں صاحبان نے متحرک کر دیا ہے۔ مستقبل کا تاریخ نویس عمران اور علامہ کے رول کا ذکر مثبت انداز میں ضرور کرے گا۔

اشاعت ڈیلی پاکستان 21 دسمبر 2014

Post a Comment

Previous Post Next Post