بہُت اُداس تھی اِن طاقچوں سے جاتی ہَوا


بہُت اُداس تھی اِن طاقچوں سے جاتی ہَوا
کوئی دیا ہی نہیں تھا کسے بُجھاتی ہَوا

مَیں چاہتا ہُوں تِرے بعد کی خموشی رہے
گزر رہی ہے مگر کِھڑکیاں بَجاتی ہَوا

اِسی خیال سے ہم رات بھر نہیں سوئے
نہ جانے کون سا اگلا قدم اُٹھاتی ہَوا

کسی پڑاو ٹھہَرنے کا نام لیتی نہیں
ہماری خاک یہاں سے وہاں اُڑاتی ہَوا

تمہارے بعد حویلی کے خالی کمروں میں
....بھٹک رہی ہے مِرے ساتھ سَرسراتی ہَوا

Post a Comment

Previous Post Next Post