اسلام آباد : سکیورٹی اداروں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ معروف عسکریت پسند گروپس سے روابط اور اپنے حکومت مخالف جذباتی بیانات کے ذریعے دوبارہ منظر عام پر آنے والے لال مسجد کے خطیب عبدالعزیز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کے لیے ایک سیکیورٹی خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
سکیورٹی ادارہ نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جن کے عسکریت پسند گروپس سے کھلے یا خفیہ روابط ہیں۔
ملک کی ایک اہم انٹیلی جنس ادارے کی جانب سے وزارت داخلہ کو ارسال کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ " لال مسجد مافیا" کے عسکریت پسند گروپس اور قبضہ گروپس کے ساتھ روابط ہے ، جبکہ لال مسجد آپریشن کے بعد منتشر ہونے والی غازی فورس نامی عسکریت پسند گروپ کو بھی دوبارہ منظم کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق " مولانا عبدالعزیز اور لال مسجد انتظامیہ کی سرگرمیوں کی نگرانی / کنٹرول نہ کی گئیں تو آگے چل کر یہ جڑواں شہروں میں امن و امان کی صورتحال کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں"۔
ڈان کے پاس دستیاب اس رپورٹ کی نقل میں طالبان اور لال مسجد کے خطیب کے درمیان روابط پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ طالبان کی نظر میں مولانا عبدالعزیز کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ انہیں عسکریت پسند گروپ نے حکومت سے مذاکرات کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا۔
رپورٹ میں "زمینوں پر قبضے کے لیے بدنام" تاجی کھوکھر کو ایسا فرد قرار دیا گیا ہے جو مدارس کی تعمیر کے لیے زمینوں کا انتظام کرتا ہے، لال مسجد انتظامیہ کو فنڈز فراہم کرتا ہے اور عدالتی مقدمات کے حوالے سے بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔
رپورٹ میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور سابق رکن قومی اسمبلی شاہ عبدالعزیز کا ذکر بھی متنازع خطیب کے "ہمدردان" کے طور پر کیا گیا ہے۔
ڈان نے ان الزامات پر ملک ریاض کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہیں ہوسکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک ریاض " مولانا عبدالعزیز کے مدارس کے یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگیوں کی شکل میں مالی امداد کرتے ہیں جبکہ انہوں نے متنازع خطیب کو بحریہ ٹاﺅن میں ایک مسجد تعمیر کرنے میں معاونت کی جس کا نام بعد میں جامعہ حفصہ رکھا گیا"۔
لال مسجد مافیا
سیکٹر جی سیون تھری میں چھوٹی بچیوں کے لیے لال مسجد انتظامیہ کے قائم کیے گئے مدرسہ سیدہ سمعیہ تھا اور پھر بدل کر " جامعہ حفصہ " رکھا گیا،رپورٹ کے مطابق "اس مدرسے سے ملحق مسجد الفلاح پر قبضے کی منصوبہ بندی کی جس پر اس مسجد کی انتظامیہ نے مزاحمت کرتے ہوئے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کردیا"، مولانا عبدالعزیز بھی اس وقت اسی جامعہ حفصہ میں مقیم ہیں۔
اسی طرح رپورٹ میں مال پور گاﺅں میں مقامی رہائشیوں کی مرضی کے خلاف جامعہ حفصہ کی ایک اور شاخ کی تعمیر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
مال پور گاﺅں کے رہائشیوں نے اسلام آباد ڈپٹی کمشنر کے پاس ایک شکایت درج کی جس میں کہا گیا تھا کہ لال مسجد کی انتظامیہ ان کے گاﺅں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
شکایت میں مزید کہا گیا ہے " پہلے وہ جامع مسجد غوثیہ کو ہتھیارنے کی کوشش کرتے رہے مگر اس کے نتیجے میں انتظامیہ نے مسجد کو سیل کردیا"۔
ایک مقامی سیاسی کارکن سبت الحسن بخاری بتاتے ہیں " یہاں صدیوں سے بریلوی اور شیعہ برادریاں پرامن انداز سے رہ رہی ہیں مگر لال مسجد انتظامیہ نے سب سے پہلے یہاں کی برادریوں کے اندر تقسیم پیدا کی، ہم حکام کے پاس شکایت درج کرانے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں"۔
دوسری جانب انتظامیہ صورتحال کے تقاضوں کے مطابق اقدام کی بجائے روایتی الزامات کی سیاست کو اپنائے ہوئے ہے۔
آئی سی ٹی انتظامی افسران نے ڈان کو بتایا کہ جی سیون یا دیگر سیکٹرز میں مدارس یا مساجد کی غیرقانونی توسیع جیسے مسائل سی ڈی اے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
ایک عہدیدار کے مطابق " جہاں تک مال پور معاملے یا لال مسجد سے متعلق امن و امان کی صورتحال کا تعلق ہے ہمیں وزارت داخلہ کی جانب سے پالیسی گائیڈ لائنز درکار ہیں"۔
سی ڈی اے کے ایک ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ تمام تر تجاوزت کو آئی سی ٹی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے کلئیر کردیا گیا ہے۔
اس کا کہنا تھا "ہم کسی بھی مسجد یا مدرسے کی جانب سے غیرقانونی توسیع کے معاملے کو دیکھتے ہیں مگر پولیس کی مدد کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا"۔
علاوہ ازیں اسلام آباد کے ایک سابق کمشنر نے بتایا کہ صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور لال مسجد کے خطیب کو اب عوامی حمایت حاصل نہیں۔
ان کا کہنا تھا "الفلاح مسجد آئی سی ٹی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے اور اسلام آباد کی تمام مساجد کی کمیٹیاں آئی سی ٹی کے پاس رجسٹرڈ ہیں، اگر اس وقت کچھ نہ کیا گیا تو پھر یہاں قانون کی رٹ قائم کرنے کا کوئی اور موقع نہیں ملے گا"۔
مولانا عبدالعزیز کی واپسی
جمعے کو مولانا عبدالعزیز نماز جمعے کی امامت کے لیے لال مسجد واپس آئے اور خطبہ دیتے ہوئے ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
مسجد کے باہر پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی اور مولانا عبدالعزیز نے مطالبات کی فہرست پیش کی جس میں ملک میں شرعی قوانین پر عملدرآمد، ملک کے موجودہ قوانین کو " اسلامی " بنانے کے لیے سنیئر علماءکی کمیٹی کی تشکیل اور مختلف روایات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جو ان کے مطابق غیراسلامی ہیں۔
Post a Comment