Khawb meri aankhoon say kaisa kaisa cheena hai....read full >>>

خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چھینا ہے
مفلسی سے بڑھ کر بھی کیا کوئی کمینہ ہے

روشنی کے مدفن میں خوشبوؤں کی میّت ہے
آرزُو کے آنگن میں درد کی حسینہ ہے

نا مُراد راتیں ہیں، بے ہدف اُجالے ہیں
ذلّتوں کے دوزخ میں اور کتنا جینا ہے؟

ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیوں کو چُن چُن کر
زہر زندگی کا یہ قطرہ قطرہ پینا ہے

جانے کون ہوتے ہیں جو مُراد پاتے ہیں
اپنے واسطے تو یہ تیرھواں مہینہ ہے

جانے کس زمانے میں اُجرتیں بھی ملتی تھیں
اب تو محنتوں کا عوض خُون اور پسینہ ہے

زر پرست بستی کی کیا حسیں ثقافت ہے
ہونٹ مسکراتے ہیں پر دلوں میں کِینہ ہے

خوف کے سمندر میں اضطراب کی موجیں
جن پہ بے یقینی کا، ڈولتا سفینہ ہے

روز اک اذیّت کے دشت سے گزرتا ہوں
نارسی کے تِیروں سے چھلنی میرا سِینہ ہے

کرب کے الاؤ میں شعلہ شعلہ جلتا ہوں
وحشتوں کی سنگت میں لمحہ لمحہ جینا ہے

شامِ زندگی سر پہ آ کھڑی ہے اور خود کو
ریزہ ریزہ چُننا ہے، لخت لخت سِینا ہے



Post a Comment

Previous Post Next Post