کس تکلُّف سے ہمیں زیر ِ اماں رکّھا گیا
آہنی پنجرے میں اپنا آشیاں رکّھا گیا
ایک ہی زنجیر تھی ' اِس پار سے اُس پار تک
کَج رَوی کا کوئی وقفہ ہی کہاں رکّھا گیا
اب تو ہم آپس میں بھی مِلتے نہیں ' کُھلتے نہیں
کس بَلا کا خوف اپنے درمیاں رکّھا گیا
اُس کنارے کوئی اپنا منتظِر ہو ' یا نہ ہو
یہ بھی کیا کم ہے کہ اِتنا خوش گُماں رکّھا گیا
یُوسُف اِک خوشبُو بھرے پَل کی رفاقت پر ہمیں
Post a Comment