A very very lesson-able story of generosity (Sakhawat) – read full >>



اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ
دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا
دسترخوان اﷲ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا
اتنے میں ایک فقیر نے یہ صدا لگائی
کہ اﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو
اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا
کہ سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو
عورت نے حکم کی تعمیل کی
جس وقت اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا
تو دھاڑیں مارکر رونے لگی
اس کے شوہر نے اس سے پوچھا
جی بیگم آپ کو ہوا کیا ہے ؟
اس نے بتلایا
کہ جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر پر دستک دے رہا تھا
وہ چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار
اور ہماری اس کوٹھی کا مالک
اور میرا سابق شوہر تھا
چند سال پہلے کی بات ہے
کہ ہم دونوں دسترخوان پر
ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے
جیسا کہ آج کھارہے تھے
اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی
کہ میں دو دن سے بھوکا ہوں
اﷲ کے نام پر کھانا دے دو
یہ شخص دسترخوان سے اٹھا
اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی
کہ اسے لہولہان کردیا
نہ جانے اس فقیر نے کیا بد دعا دی
کہ اس کے حالات دگرگوں ہوگئے
کاروبار ٹھپ ہوگیا
اور وہ شخص فقیر وقلاش ہوگیا
اس نے مجھے بھی طلاق دے دی
اس کے چند سال گذرنے کے بعد
میں آپ کی زوجیت میں آگئی
شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا
بیگم کیا میں
آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاوں؟
اس نے کہا ضرور بتائیں
کہنے لگا
جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی
وہ کوئی دوسرا نہیں
بلکہ میں ہی تھا
گردش زمانہ کا ایک عجیب نظارہ یہ تھا
کہ اﷲ تعالیٰ نے اس بدمست مالدار کی
ہرچیز ، مال ، کوٹھی ، حتیّٰ کہ بیوی بھی چھین کر
اس شخص کو دے دیا
جو فقیر بن کر اس کے گھر پر آیا تھا
اور چند سال بعد
پھر اﷲ تعالیٰ اس شخص کو فقیر بنا کر
اسی کے در پر لے آیا
واﷲ علی کل شی ءقدیر
اسی لیے کسی شاعر نے کہا
نہ ہو مغرور دولت پر نہ مغرور عزت پر،
نہ ہو مغرور طاقت پر نہ ہو مغرور صحت پر
کیونکہ یہ سب چار دن کی چاندنی
اور پھر اندھیری رات والا معاملہ ہے
تاریخ ایسے عبرت آموز واقعات سے بھری پڑی ہے
شرط ہے کہ انسان اس سے عبرت پکڑے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post