ُParindon ki hijrat say apni azaan tak.. by Hassan Nisar - پرندوں کی ہجرت سے اپنی اذان تک... چوراہا … حسن نثار



40برس بیت گئے اس کھیل میں، خیالات، کاغذات اور قلم سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے سو مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ کالم نویسی اور مضمون نگاری میں کیا فرق ہے لیکن اب تو حالت یہ ہے کہ باقی چھوڑ ’’رپورٹر کی ڈائری‘‘ بھی کالم نویسی کے کھاتے میں جمع کر دی جاتی ہے۔ اک یہی کیا، پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے تو ہجوں اور تلفظ کا بھی ایسا تیا پانچہ کیا ہے کہ اس ادبی، علمی، صحافتی دہشت گردی پر حیرت ہوتی ہے۔ بہت سے الفاظ اس طرح بولے اور لکھے جا رہے ہیں کہ آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ بولنے والے نے بولا اور ’’ٹِکر‘‘ لکھنے والے نے کیا سوچ کر لکھا ہو گا لیکن باقی کون سا شعبہ انحطاط سے بچا جو زبان اس انجام سے محفوظ رہتی۔ خود میرے اپنے گزشتہ تین کالم، کالم کم کچھ اور زیادہ تھے۔ مضمونچے ٹائپ شے تھے جن میں سے دو کو ’’تحقیقی‘‘ قرار دے کر انڈر پروڈکشن گورنر عطاءالحق قاسمی نے میرا بھرم رکھ لیا کہ عطا خنجر بھی مارے تو خنجر پر خوشبو اور اینٹی سیپٹیک روئی کا دبیز غلاف چڑھانا نہیں بھولتا جس سے زخم کا نہیں، گدگدی کا احساس ہوتا ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں ہنسنے مسکرانے کی صورت ہی ایک بچی ہے کہ کوئی گدگدی کر دے۔ آج کا کالم حالات کی گدگدی کا ردعمل سمجھیں اور حالات کیا ہیں؟ شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہاں کے فیورٹ شہر لاہور میں درختوں کی بے تحاشہ بھاری مینڈیٹ کٹائی کے باعث وہ خوبصورت پرندے دھڑا دھڑ اس شہر سے ہجرت کر رہے ہیں جو کبھی اس شہر نگاراں کی جان اور پہچان ہوا کرتے تھے۔ اب اس شہر پر چیلوں، کوئوں اور گدھوں کا راج ہے۔ طوطوں، چڑیائوں، فاختائوں، کوئیلوں، بلبلوں، نیل کنٹھوں، ہدہدوں اور سائیں لوک درویش جنگلی کبوتروں کی جگہ آپ نہر کے دونوں کناروں پر مردار خور گدھوں، چیلوں اور کوئوں کے غول دیکھتے ہیں جو گڈ گورننس کی زندہ نشانیاں ہیں۔ گڈ گورننس نے بھوک بیروزگاری میں اتنا اضافہ کر دیا ہے۔ کہ خالی پیٹ نت نئے پیشے ایجاد کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جن میں سرفہرست چھیچھڑوں کی خرید و فروخت ہے۔ نادار لوگ مذبح خانوں سے چھیچھڑے اکٹھے کرتے اور انہیں شاپروں میں پیک کر کے صدقہ کے گوشت کے طور پر بیچتے ہیں اور خریدار یہ ’’سستا صدقہ‘‘ خرید کر نہر کنارے فٹ پاتھوں پر بکھیر دیتے ہیں جن کے سبب نہر کنارے مردار خور پرندوں کے غول سیاہ بادلوں کی طرح منڈلاتے پھرتے ہیں۔ انسانی گردوں اور دیگر اعضاء سے لے کر چھیچھڑوں تک کی تجارت ہماری معیشت کی وہ صحیح تصویر ہے جس کے دوسرے رخ کا بھی جواب نہیں کہ یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا تو چھوڑیں، بقول عمران خان ہماری نیچ ترین اشرافیہ نے صرف گزشتہ دو سال میں ساڑھے چار ارب ڈالر دبئی منتقل کئے....جائیدادیں اس کے علاوہ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سو فیصد درست حقیقت غلط انداز میں قوم کے سامنے پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ سینٹ انتخابات کو مویشی منڈی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میرے نزدیک سراج صاحب نے مویشیوں کا استحقاق مجروح کیا کیونکہ مویشی بہت محترم ہوتے ہیں۔ دودھ دیتے ہیں، ہل جوتتے ہیں، ان کے گوبر سے کھاد اور اپلے بنتے ہیں، کھال سے مختلف مصنوعات بنتی ہیں، سواری کے کام بھی آتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے سینگ بھی بیکار نہیں ہوتے اور گوشت تو ہے ہی۔ اک خاص قسم کے لوگ تو درندوں کی مانند ہوتے ہیں بلکہ درندے بھی خاص قسم کے جن کی کوئی شے انسان کے کسی کام کی نہیں مثلاً شیر آدم خور بھی ہو تو اس کی چربی اور کھال تو استعمال میں لائی جا سکتی ہے لیکن بھیڑیوں اور لگڑبگوں کا کوئی کیا کرے گا۔ بکائو منتخب نمائندوں کو بھی جب ’’گھوڑے‘‘ کہا جاتا ہے، مجھے غصہ چڑھتا ہے کیونکہ گھوڑا خوبصورت، وفا دار، برق رفتار، باوقار ہی نہیں، بوقت ضرورت خوراک کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ حرام نہیں صرف مکروہ قرار پایا۔ یہاں تک کہ کتوں کی بھی بیشمار تراکیب استعمال ہیں لیکن وہ جو انسانوں کے اعتماد کا سودا کرتے نہیں شرماتے، ان کے لئے کوئی نئی اصطلاح متعارف کرانا ہو گی۔ دروغبر گردن اخبار بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ’’مکمل اختیارات ملنے تک واپس نہیں آئوں گا۔‘‘ زرداری صاحب ہماری ٹائپ کی سیاست کے عمدہ شہسوار ہیں۔ ویسے بھی ان کی زندگی مخیر العقول کامیابیوں کی دلچسپ داستان ہے لیکن شاید اس بار ان کا سیاسی گھر اپنے ہی چراغ کی آگ میں لپٹنے کو بے چین و بے قرار ہے کیونکہ شاید زرداری صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اقتدار کا نہ کوئی یار ہوتا ہے نہ رشتہ دار۔ ایک سلطنت میں دو سلطان اور ایک نیام میں دو تلواریں تو مسلمانوں کی تاریخ میں بھی نہیں ملتیں جنہیں رشتوں کے احترام کا حکم اور ہدایت ہے۔ جنہیں بتایا گیا کہ تمہاری جان مال آبرو ایک دوسرے پر حرام ہے لیکن کارزار اقتدار میں بڑے بڑے ’’متقی‘‘ منافق بھی نکلے اور سفاک ترین بھی۔ اقتدار کے جنون میں کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے صرف کھوپڑیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں شکلیں دکھائی نہیں دیتیں، نہ چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ اقتدار غیر مشروط اختیار مانگتا ہے بصورت دیگر تلوار منصف ٹھہرتی ہے اور آخری فیصلہ تختہ دار پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی موروثی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں....دراصل ہمیشہ اقتدار میں ہی ہوتی ہیں۔ حکومت میں ہوں تو کھربوں روپے کی لوٹ مار کا جمہوری این او سی حکومت کے انتظار میں ہوں تو اربوں روپے پارٹی فنڈ کی آڑ میں اور جو چڑھاوے چڑھتے ہیں وہ علیحدہ، پروٹوکول کے پیگ بالکل علیحدہ۔ پاکستان سیاست سے بڑی ’’صنعت‘‘ دنیا نے نہیں دیکھی۔ خود بلاول کی تو والدہ محترمہ نے اپنی والدہ بیگم بھٹو مرحومہ کی شرکت شراکت قبول نہ کی تو بلاول کے لئے ایک ’’فادر‘‘ دوسرا ’’گاڈ فادر‘‘ کیسے قبول ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے بھی خوب کہا کہ ....’’بلدیاتی ادارے نہ ہونے سے آئین بے معنی ہو چکا‘‘ آئین کی اس بے معنویت اور جمہوریت کی آڑ میں اس جگاڑنے ہی تو عوام کو ہر لحاظ سے وہاں پہنچا دیا جہاں سے ان کی واپسی کسی معجزہ سے کم نہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نے اذان کے لئے ایک وقت مقرر کرنے کے امکان کی طرف اشارہ کیا ہے تو دل پارہ پارہ کہ جو اذان کے وقت پر متفق نہ ہو سکیں وہ اور کس بات پر متحد ہو سکتے ہیں؟ ہم صرف اس نکتے پر متفق ہیں کہ ہم نے کبھی متحد نہیں ہونا لیکن مسلم امہ کے خواب دیکھنے دکھانے سے باز بھی نہیں آنا۔

اشاعت ڈیلی جنگ 23 فروری 2015

Post a Comment

Previous Post Next Post