حال ہم اپنا جو لوگوں پہ عیاں کر دیتے
سانس لینا بھی ہمارا وہ گراں کر دیتے
ڈھونڈنے وہ مجھے آیا ہی نہیں ہے ورنہ
رہنمائی مرے قدموں کے نشاں کر دیتے
شدتِ غم سے یہ ممکن تھا پگھل جاتا وہ
غم ترا گر کسی پتھر سے بیاں کر دیتے
غم کے موسم میں بُخارات کی صورت آنسو
دِل سے اٹھتے تو پھر آنکھوں میں دھواں کر دیتے
ہم نے اچھا ہی کیا اشک سنبھالے ورنہ
ساتھ دنیا کو بھی ہم گریہ کناں کر دیتے
Post a Comment