پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پُھول ہے
جب تُو قبُول ہے ، تیرا سب کچھ قبُول ہے
پھر تُو نے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھُول ہے
تُو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبُول ہے
تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے
لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیم
جو مانتا نہیں ، اُسے کہنا فضُول ہے
یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبُول ہے
آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیم
جانے زیاں ہے یہ کہ خُوشی کا حصُول ہے
Post a Comment