Disastrous flood washed away 40 bridges, many villages in #Chitral - read full report >>



چترال نظرِ بد کی نذر ہوگیا، تباہی سے بحالی میں کئی سال لگیں گے، این ڈی ایم اے کے پی کے کے جھوٹے دعوے: تفصیلی رپورٹ پڑھیں

کراچی (نمائندہ ٹائمز آف چترال ) چترال جسے دہشت گردی نہ چھوسکی، ہزاروں سازشیں یہاں کے لوگوں کو لڑانے میں ناکام ہوئیں۔ جہاں ملک کے دیگر حصے دہشت گردی، قتل وغارت گری اور امن و امان کی صورتحال سے دوچار رہے۔ وہاں چترال ہی وہ واحد علاقہ تھا جس کا نام خوبصورتی، امن اور مہمان نوازی کے لئے زبان زدعام تھا۔ یہی وجہ بنی کہ چترال کو نظر بد کھاگئی۔ 

16 جولائی سے شروع ہونے والی ہلکی بارشوں کا سلسلہ جوں جوں طول پکڑا یہ طوفانی بارشوں میں تبدیل ہوگیاجس نے علاقہ کا انفراسٹرکچر ایسا تباہ کر ڈالا جیسے تھا ہی نہیں۔ بارشوں کا یہ سلسلہ چترال شہر سے شروع ہوا تھا، جو آہستہ آہستہ پورے ضلع میں پھیل گیا۔ اور ایسی تباہی لائی کہ چترال کی تاریخ میں ایسی تباہی نہیں ہوئی تھی۔ شاید ہی کوئی گائوں بچ گیا ہو جہاں بارشوں نے تباہی نہ مچا دی ہو۔ چترال شہر، کیلاش، بمبوریت، ایون، گرم چشمہ ، کریم آباد اور ملحقہ علاقے، ریشن، زیئت، کوراغ، چرون ، کوشٹ، موردیر، بونی،جونال کوچ، مستوج، بریپ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بڑی تباہی ہوئی ہے۔ دیگر علاقے بھی متاثر ہوئے مگر کم ۔ مواصلاتی نظام بری طرح تباہ ہوگیا ہے۔ سڑکیں اور پل دریا میں بہہ گئے ہیں۔ اب تک کی خبرون کے مطابق 40 سےزائد پل دریا برد ہوگئے ہیں۔ جہاں اتنے پل تباہ ہوگئے ہوں وہاں سڑکوں کا اندازہ لگا نا آسان ہے۔ سب ڈویژن مستوج کی واحد سڑک جو دیگر علاقوں کو منسلک کرتے ہوئے چترال سے مستوج، بریپ تک جاتی ہے۔ مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔ کورغ گول میں شدید طغیانی نے کوراغ گول میں اس سڑک کو بہا کر لے گیا ہے اور یہ سیلابی ریلہ جب دریا چترال میں داخل ہو ا اور کچھ دیر تک دریا چترال کو روک کے رکھا ، جس سے دریا ڈیم کا منظر پیش کرنے لگا لیکن یہ کب تک رکنا تھا، اچانک بند ٹوٹ گیا اور دریا بپہر گیا خوف ناک شکل اختیار کرلی اور ایک بڑے سیلابی ریلے کی صورت اختیار کرگیا اور اپنے سامنے آنے والے پلوں، سڑکوں کو روندتا ہوا ٓگے بڑھنے لگا۔ جگہ جگہ کٹائوں سے دیہات کو شدید نقصان پہنچا، شوگرام، ریشن اڑیان، ریشن نارزوم، گرین لشٹ، پارپیش ،برنس، مروئی، پریت، کوغزی اور دیگر دیہات کو شدید نقصان پہنایا۔ کھڑی فصلیں ، جنگلات اور گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ کٹا ئو کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ 

چترال میں بارشوں سے 3 لاکھ خاندان براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 160 مکانات مکمل طور پر سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ اور اس سے دکنے مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان گرم چشمہ میں ہوا ہے۔ جہاں 80 سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور ایک گائوں صفہ ہستی سے ہی مٹ گیا۔ کئی دیہات پانی میں کھڑے ہیں اور لوگ کھلے آسمان تلے بے یارومددگار حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ کیلاش میں سڑکیں ٹوٹنے سے کیلاش وادی ، وادی چترال سے کٹ چکا ہے۔ جہاں زرائع آمدورفت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہی حال چترال کے دیگر دیہات کا بھی ہے۔ لوٹ کوہ کی سڑک جگہ جگہ ٹوٹ جانے سے گرم چشمہ اورکریم آباد میں آمدورفت بند ہے۔ چترال کی اہم شاہرہ مستوج روڈ بھی کئی جگہوں پر مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔ جس کی وجہ سے چترال شہر سے اپر چترال کے تمام دیہات سے رابطہ منقطع ہے۔ غذائی اشیاء کی نقل وحمل نہ ہوسکنے کی جگہ سے لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ پانی کے ذرائع پائپ لائنز، ندیاں سیلاب برد ہونے کی وجہ سے تمام دیہات میں پینے کا پانی نا پید ہے۔ مویشی اور انسانوں دونوں کو پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ لوگ گندہ اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ 

خدا بھلا کرے پاک فوج کا، سیلاب کی تباہ کاریوں کے فوراً بعد دو ہیلی کاپٹر بھیج کر امدادی کاموں کا آغاز کیا ہے۔ اورسیلاب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غذائی اور نقل وحمل کی سروس فراہم کر رہی ہے۔ اور مصیبت کے اس وقت میں پاک فوج ہی واحد ادارہ ہے جو چترال اور ملک کے دیگر علاقوں میں امدادی کاموں کے لئے آگے آیا ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت کے پاس ایسی ایمرجنسی میں سروس دینے کے لئے دو ہلی کاپٹر موجود ہیں۔ جو عوام کے پیسوں سے عوام کی خدمت کی غرض سے خریدے گئے تھے۔ مگر یہ پرویز خٹک، عمران خان، ریحام خان کی وی آئی پی مومومنٹ کے لئے رکھے گئے ہیں۔ نہ کہ عوام کی خدمت کے لئے۔

انفراسٹرکچر کی تباہی کا اندازہ لگا نا فی الحال مشکل ہے ۔ لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ 40 سے زائد پلوں کو ازسر نو تعمیر کرنے کے لئے اربوں روپے درکار ہونگے۔ جو اس وقت صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا رویہ ہے اس سے تو لگتا ہے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ویسے بھی چترال کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ جس کی مثال لوری ٹنل کی تعمیر میں بلاوجہ کی تاخیر ہے۔ نہ صرف لواری ٹنل بلکہ دیگر ایسے منصوبے ہیں جو اپنے میعاد سے کئی سال زیادہ لے چکے ہیں، جیسا کہ گولین گول ہائیڈل پاور پروجیکٹ۔ تاخیر کی وجہ سے جس کی تعمیری لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ لوری ٹنل جسے 2008 میں مکمل ہونا تھا، تاحال زیر تعمیر ہے۔ 

یہاں ہم چترال کے عوامی نمائندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر دبائوں ڈالیں اور جتنی جلدی ہوسکے فنڈ ریلیز کروائیں اور سڑکوں اور پلوں کی تعمیر جلد از جلد شروع کرائیں۔ تاحال مرکزی حکوت سورہی ہے اتنی بڑی تباہی کے باوجود ایک بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ صوبائی حکومت شاید عمران خان کے حکم کی منتظر ہے ۔ اور خان صاحب کو کب فرصت ملے اور چترال میں سیلاب سے آنے والی تباہی کا اندازہ لگائیں۔ این ڈی ایم اے خیبر پختونخواہ کے سڑکیں بحال کرنے کے جھوتے دعوے میڈیا پر سننے کو مل رہے ہیں۔ تاہم ابھی این ڈی ایم اے کے پی کا کوئی نمائندہ علاقے کا دورہ تک نہیں کیا ہے۔ میڈیا میں سننے میں آرہا ہے کہ چترال بونی سڑک کو بحال کیا گیا ہے جو سراسر جھوٹ اور این ڈی ایم اے کی لاپرواہی اور غیر ذمہ درانہ بیان ہے۔ 




Post a Comment

Previous Post Next Post