جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات دو جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں فوکس ویگن کے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ جان لیوا واقعہ اسی ہفتے پیر انتیس جون کے روز پیش آیا۔
فوکس ویگن کے ترجمان ہائیکو ہِلوِگ کے مطابق یہ صنعتی کارکن فرینکفرٹ سے قریب 100 کلومیٹر شمال کی طرف باؤناٹال کے مقام پر اس ادارے کے ایک پیداواری یونٹ میں کام کر رہا تھا کہ وہاں موجود بہت سے روبوٹس میں سے ایک کے ہاتھوں مارا گیا۔
ترجمان کے مطابق مارے جانے والے کارکن کی عمر 22 برس تھی اور وہ ایک ایسی ٹیم کا رکن تھا جو ایک ساکت روبوٹ نصب کر رہی تھی۔ ہائیکو ہِلوِگ نے بتایا، ’’روبوٹ کی تنصیب کے دوران اس خودکار مشین نے اس ورکر کو اپنے فولادی بازوؤں میں جکڑا اور اسے ایک بڑی دھاتی پلیٹ پر دے مارا۔‘‘
کمپنی ترجمان کے مطابق اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے اشارے ملتے ہیں کہ یہ مردم کشی متعلقہ روبوٹ میں پیدا ہونے والی کسی خرابی کی بجائے انسانی غلطی کا نتیجہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ فوکس ویگن کے پروڈکشن یونٹس میں ایسے روبوٹس کو کاروں کی اسمبلنگ کے دوران کئی طرح کے کام کرنے کے لیے پروگرام کیا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ خودکار مشینیں کسی بھی فیکٹری میں محض ایک طے شدہ جگہ یا رقبے کے اندر رہتے ہوئے ہی کام کرتی ہیں۔ اس دوران یہ روبوٹ موٹر گاڑیوں کے مختلف چھوٹے بڑے پرزوں کو اپنی گرفت میں لے کر انہیں جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس واقعے کے وقت ایک اور کارکن بھی موقع پر موجود تھا، جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ فوکس ویگن کے ترجمان نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ قانونی طور پر ماہرین کی طرف سے چھان بین جاری ہے، اس لیے مزید کچھ کہنا درست نہیں ہو گا۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اسی بارے میں فرینکفرٹ سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے اس بارے میں غور کیا جا رہا ہے کہ آیا اس ’قتل‘ کے سلسلے میں باقاعدہ فرد جرم عائد کی جانی چاہیے۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہاں تو ملزم کس کو نامزد کیا جائے۔
خبر بحوالہ DW
خبر بحوالہ DW
Post a Comment