تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے
نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے
چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے
استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے
آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے
مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے
ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے
دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے
Post a Comment