دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں
ہم ہیں حصارِ درد میں ، اُس کو خیال بھی نہیں
اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جو ہے دھوپ کا
یہ جو نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں
وہ جو انا پرست ہے ، میں بھی وفا پرست ہوں
اُس کی مثال بھی نہیں ، میری مثال بھی نہیں
عہدِوصالِ یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑ کنیں
موجۂ خون احتیاط! خود کو اُچھال بھی نہیں
تم کو زبان دے چکے ، دل کا جہان دے چکے
عہدِوفا کو توڑ دیں ، اپنی مجال بھی نہیں
اُس سے کہو کہ دو گھڑ ی، ہم سے وہ آملے کبھی
مانا! یہ ہے محال پر، اتنا محال بھی نہیں
Post a Comment