کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے
آنکھ ٹھرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے
مجھ کو اس قحط کے موسم سے بچا رب سخن
جب کوئی اہل ہنر عرض ہنر کو ترسے
اب کےاس طور مسلط ہوا اندھیرا ہر سو
ہجر کی رات میرے دیدہ تر کو ترسے
عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے
اس کو پا کر بھی اسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سیپ گہر کو ترسے
ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو
آئینہ خال و خد آئینہ گر کو ترسے
ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تیری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھے جو تیری ایک نظر کو ترسے
شہر صر صر میں جو سر سبز رہی ہے محسن
موسم گل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے
Post a Comment