اسلام آباد میں مختلف نجی سکولوں کے والدین نے بچوں کے سکولوں کی جانب سے ماہانہ فیسوں اور مختلف دوسری مدوں میں اضافی اخراجات کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔
احتجاج کرنے والے والدین اسلام آباد کے مختلف سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے تھے جنھوں نے نجی سکولوں کی جانب سے فیسوں میں حالیہ اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
مظاہرین کی نمائندہ عالیہ آغا نے اپنے مطالبات سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’پرائیویٹ سکولوں نے والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھ رکھا ہے، جب چاہا جتنا چاہا بل لگا کر بھجوا دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کی ماہانہ فیس ادا کرتے ہیں، پھر اس کے بعد ہر سال سالانہ فیس ہم سے علیحدہ وصول کی جاتی ہے، اس کے بعد گرمیوں کی فیس علیحدہ ہے۔
’ہر سال کے شروع میں ہزاروں روپے سیکنڈ ہینڈ یا اس بھی پرانی کتابوں کے کرائے کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں جنھیں سال کے آخر میں واپس لے لیا جاتا ہے۔‘
بچوں کے والدین نے بتایا کہ ان کی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے میں صرف ہوتا ہے جس کے حوالے سے انہوں نے الزام لگایا کہ اس کا سکول مالکان ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں
عالیہ آغا نے مزید کہا کہ ’ملکی سطح پر افراطِ زر کی شرح پانچ فیصد ہے تو سکول کیوں اس سے زیادہ بلکہ 18 فیصد تک وصول کر رہے ہیں؟‘
ذیشان احمد ملک کے تین بچے ایک مقامی سکول میں پڑھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ان تین بچوں کی فیسوں اور دوسرے اخراجات پر میرا ماہانہ خرچ 50 ہزار سے زیادہ ہے اور اس سال یہ اس سے بڑھ کر 60 ہزار ہو چکا ہے۔‘
بچوں کے والدین نے بتایا کہ ان کی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے میں صرف ہوتا ہے جس کے حوالے سے انہوں نے الزام لگایا کہ اس کا سکول مالکان ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں
ذیشان کے مطابق ’چھوٹے بچے جن کی کتابیں بھی نہیں، ان کے لیے میں ایک سال میں 38 ہزار روپے خرچ کر چکا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں کر سکتا کہ ایک کے لیے کتابوں کے پیسے دے کر ان کتابوں کو اپنے ہی دوسرے بچے کے لیے استعمال کر سکوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب اضافے کے بعد میرے تین بچوں کی اب فیس کا بل اڑھائی لاکھ روپیہ بنا ہے جو میرے جیسا تنخواہ دار بندہ نہیں ادا کر سکتا۔‘
والدین اس بات پر متفق تھے کہ اس رقم کا نصف بھی خرچ کیا جائے تو بچوں کو بہترین معیاری تعلیم بآسانی دی جا سکتی ہے مگر انھوں نے الزام لگایا کہ سکولوں کے مالکان کا یہ کاربار بن چکا ہے جس سے وہ منافع کمانا چاہتے ہیں جس کے لیے یہ سب حیلے بہانے سے والدین سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس کے حوالے سے یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 29 مئی کو پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ تمام پرائیویٹ سکولوں کو گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس جمع کرنے سے روکیں اور اس سلسلے میں سکولوں اور اخبارات اشتہارات میں لگائیں تاکہ والدین مطلع ہوں۔
سکولوں کی فیسوں کے علاوہ دوسرے اخراجات پر بھی والدین نے شدید تنقید کی
ایک اور والد محسن خان نے بتایا کہ ’بچوں کی فیسوں کے علاوہ ان کے بچوں کی دو وردیاں ہیں، گرمیوں کی الگ اور سردیوں کی الگ، جو ایک ہی دکان سے دستیاب ہیں اور بہت مہنگی ہیں۔ اس کے علاوہ جنریٹر کے لیے پیسے علیحدہ، پشاور حملے کے بعد سکیورٹی مد میں جو اخراجات ہوئے وہ بھی ہمارے کھاتے میں ڈالے گئے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے مختلف سکول اپنے طلبہ سے سکیورٹی فنڈ کے نام پر فی بچہ ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں جس میں پشاور کے آرمی پبلک سکول حملے کے بعد اضافہ کیا گیا تھا۔
عالیہ آغا نے مطالبہ کیا کہ ’پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن ریگولیٹری اتھارٹی کا چیئرمین فوری طور پر مقرر کیا جائے تاکہ یہ ادارہ فعال ہو اور اس ساری معاملے کو ریگولیٹ کرے اور اس حوالے سے قانون سازی کی جا سکے، تاکہ جو فیسیں ہیں وہ سی پی آئی یعنی کنزیومر پرائس انڈیکس سے مطابقت رکھتی ہوں اور انھیں افراطِ زر کے شرح کے حساب سے بڑھایا جائے۔‘
احتجاج کے بعد عالیہ آغا نے کہا کہ اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ سکولوں کے دروازوں پر اپنے بچوں کے ساتھ دھرنا دیں گے اور اگر پھر بھی ان کی بات نہ سنی گئی تو تمام والدین بچوں کو سکولوں سے ہٹانے پر مجبور ہوں گے۔
Post a Comment