غزل
اوجِ کمال پر رہے، برجِ زوال میں رہے
ٹھہرے نہ ایک حال پر،ہر ایک حال میں رہے
عیش میں ہم بکھر گئے ،جیش میں پاؤں اُکھڑ گئے
ہم اہلِ قیل و قال تھے، سو قیل و قال میں رہے
کوئی ہوا نہ سر نگوں، کوئی رہا نہ سر بلند
دونوں ملول ہو رہے،دونوں ملال میں رہے
میری بھی اک ترنگ ہے،مجھ میں بھی اک ملنگ ہے
کتنے ہی رمزِ جذب و شوق میری دھمال میں رہے
میری نہ پوچھیے کہ میں اپنی مثال آپ ہوں
یعنی مری طرح کے لوگ ضرب المثال میں رہے
Post a Comment