Elimination of Israel is not in mind says Hizbullah leader Hassan Nasrullah >>>


بیروت ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ
اسرائیل کی دیرینہ دشمن ہونے کی دعوے دار لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کہا ہے کہ ان کی جماعت کا اسرائیل کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطے بعض عرب ممالک دشمن کے ایجنٹ ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق حزب اللہ کے ایک مقرب ٹی وی پر نشر کیے گئے خطاب میں حسن نصراللہ نے لبنان کی داخلی سیاسی اور امن وامان کی صورت حال کو یکسرنظرانداز کیا۔

حسن نصراللہ کی تازہ تقریر ایک ایسے وقت میں نشر کی گئی جب لبنان میں سابق مقتول وزیراعظم رفیق حریری کی برسی کی تقریبات منائی جا رہی ہیں۔

اپنی تقریر میں حسن نصراللہنے اسرائیلی دھمکیوں کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی حالانکہ اسرائیل دھمکی آمیز لہجے میں حزب اللہ پر جوہری بم حاصل کرنے کا الزام عاید کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ایک میزائل اسرائیل کی جانب سے درپیش خطرے کی روک تھام کے لیے تیار ہیں۔ یہ میزائل لبنان کے خلاف اسرائیلی دشمن کی کسی بھی جارحیت کو روکنے کےلیے استعمال کیے جائیں گے۔

حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تیسری جنگ میں فوج، لبنانی قوم اور مزاحمتی قوتیں ملک کر پورے عزم کے ساتھ لڑیں گی اور دشمن کو چاروں شانے چت کر دیں گی۔ حزب اللہ کی عسکری صلاحیت اور تزویراتی حکمت عملی سے اسرائیل کے عزائم خاک میں ملائے جائیں گے۔

ان تمام دھمکیوں کے علی الرغم حسن نصراللہ نے ماضی کے بیانات کے برعکس کہا کہ ان کی جماعت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا کوئی پروگرام نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اسرائیل کے لیے اس لیے خطرہ ہے کیوکہ جماعت فلسطین میں اسرائیل کے توسیعی منصوبوں اور مشرق وسطیٰ میں صہیونی ریاست کی اجارہ داری کے خلاف ہے۔

شام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حسن نصراللہ نے حسب روایت اہل سنت مسلک کے عرب ممالک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے شام کے بحران کےحل کے لیے بعض سنی ممالک پر مشتمل اتحاد کی تشکیل کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک نے شام کے بحران کو گھمبیر کیا ہے۔ یہ ممالک دشمن کے ایجنٹ ہیں۔

شام میں داعش کے خلاف ترکی اور سعودی عرب کی مشترکہ عسکری تیاریوں پربھی سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ شام میں ان ملکوں کی مداخلت داعش کے خلاف نہیں بلکہ ان کا ہدف بشارالاسد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ترکی کا شام میں فوجی مداخلت سے گریز مسئلے کے حل میں مدد گار ہو سکتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post