اچانک دِل رُبا موسم کا دِل آزار ہو جانا
دُعا آساں نہیں رہنا سُخن دُشوار ہو جانا
تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تُم کو ہی نہیں دیکھیں
محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہوجانا
ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی
ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دلدار ہو جانا
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گُل بار ہو جانا
ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کِس طرح آئے
ہواوں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
Post a Comment