بی بی سی اردو
چترال میں پوست کی کاشت دوبارہ شروع
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی تحصیل مستوج میں کاشت کاروں نے مسائل حل نہ ہونے پر پوست کی کاشت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صحافی انور شاہ کے مطابق پوست کی کاشت کا فیصلہ گذشتہ دنوں مقامی افراد اور عمائدین علاقے کے درمیان ہونے والے ایک جرگے میں ہوا۔
مقامی افراد نے کئی سال پہلے اس فصل کی کاشت حکومت کی اس یقین دہانی پر ختم کی تھی کہ علاقے کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
بریپ کے ایک مقامی شخص محمد اشرف نے بتایا کہ سنہ 2015 کے سیلاب کے باعث یہاں چھ بڑے واٹر چینلز خراب ہو جانے کے وجہ سے فصلیں متاثر ہوئی تھیں۔
جس بجلی گھر کا ذکر یہ لوگ کر رہے ہیں وہ جرمنی کے تعاون سے تیار ہوا تھا اور سیلاب میں تباہ ہو گیا۔ حکومت نے حالیہ بجٹ میں اس کی تعمیرِ نو کے لیے 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ بجلی کی بحالی کے کام میں وقت لگے گا لیکن عوام کا کام یہ نہیں کہ وہ حکومت کو پوست کاشت کرنے کی دھمکیاں دیں۔
اسامہ وڑائچ، ڈپٹی کمشنر چترال
انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے چترال میں زرعی قرضوں کی معافی کا اعلان بھی کیا تھا جس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔
علاقے کے مقامی رہنما میر رحیم نے کو بتایا کہ سروے کے باوجود سیلاب سے متاثرہ کسی بھی شخص کو ابھی امدادی چیک نہیں ملا۔ جس کے لیے علاقے کے افرادنے مظاہرے بھی کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مظاہروں میں ہم نے حکومت اور انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا کہ اگر ہماری مدد نہیں کی گئی تو قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ناگفتہ بہ معاشی حالات سے نکلنے کے لیے ہم پہلے کی طرح پوست کی کاشت شروع کر دیں گے۔
اس حوالے سے چترال کے ڈپٹی کمشنر اسامہ احمد وڑائچ نے بتایا کہ رمضان سے پہلے ان لوگوں نے جلسے اور جلوس منعقد کیے تھے اور کہا تھا کہ ہم پوست کاشت کریں گے لیکن جس بجلی گھر کا ذکر یہ لوگ کر رہے ہیں وہ جرمنی کے تعاون سے تیار ہوا تھا اور سیلاب میں تباہ ہو گیا۔
ان کے مطابق حکومت نے حالیہ بجٹ میں اس کی تعمیرِ نو کے لیے 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
ان کے مطابق سیلاب اور زلزلے سے پورے ضلعے میں تباہی ہوئی تھی اور چترال میں 18,400 لوگوں میں دو ارب 19 کروڑ روپےکے چیک تقسیم گئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق بجلی کی بحالی کے کام میں وقت لگے گا لیکن عوام کا کام یہ نہیں کہ وہ حکومت کو پوست کاشت کرنے کی دھمکیاں دیں۔
خیال رہے کہ پاکستان گزشتہ پانچ برسوں سے پوست کی کاشت سے پاک ملک ہے۔
گذشتہ برس ملک سے پوست کی کاشت کے مکمل خاتمے کے لیے قانون میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں پوست کاشت کرنے والوں کی محض فصلیں ہی تباہ نہیں کی جائیں گی بلکہ انھیں گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی تحصیل مستوج میں کاشت کاروں نے مسائل حل نہ ہونے پر پوست کی کاشت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صحافی انور شاہ کے مطابق پوست کی کاشت کا فیصلہ گذشتہ دنوں مقامی افراد اور عمائدین علاقے کے درمیان ہونے والے ایک جرگے میں ہوا۔
مقامی افراد نے کئی سال پہلے اس فصل کی کاشت حکومت کی اس یقین دہانی پر ختم کی تھی کہ علاقے کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
بریپ کے ایک مقامی شخص محمد اشرف نے بتایا کہ سنہ 2015 کے سیلاب کے باعث یہاں چھ بڑے واٹر چینلز خراب ہو جانے کے وجہ سے فصلیں متاثر ہوئی تھیں۔
جس بجلی گھر کا ذکر یہ لوگ کر رہے ہیں وہ جرمنی کے تعاون سے تیار ہوا تھا اور سیلاب میں تباہ ہو گیا۔ حکومت نے حالیہ بجٹ میں اس کی تعمیرِ نو کے لیے 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ بجلی کی بحالی کے کام میں وقت لگے گا لیکن عوام کا کام یہ نہیں کہ وہ حکومت کو پوست کاشت کرنے کی دھمکیاں دیں۔
اسامہ وڑائچ، ڈپٹی کمشنر چترال
انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے چترال میں زرعی قرضوں کی معافی کا اعلان بھی کیا تھا جس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔
علاقے کے مقامی رہنما میر رحیم نے کو بتایا کہ سروے کے باوجود سیلاب سے متاثرہ کسی بھی شخص کو ابھی امدادی چیک نہیں ملا۔ جس کے لیے علاقے کے افرادنے مظاہرے بھی کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مظاہروں میں ہم نے حکومت اور انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا کہ اگر ہماری مدد نہیں کی گئی تو قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ناگفتہ بہ معاشی حالات سے نکلنے کے لیے ہم پہلے کی طرح پوست کی کاشت شروع کر دیں گے۔
اس حوالے سے چترال کے ڈپٹی کمشنر اسامہ احمد وڑائچ نے بتایا کہ رمضان سے پہلے ان لوگوں نے جلسے اور جلوس منعقد کیے تھے اور کہا تھا کہ ہم پوست کاشت کریں گے لیکن جس بجلی گھر کا ذکر یہ لوگ کر رہے ہیں وہ جرمنی کے تعاون سے تیار ہوا تھا اور سیلاب میں تباہ ہو گیا۔
ان کے مطابق حکومت نے حالیہ بجٹ میں اس کی تعمیرِ نو کے لیے 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
ان کے مطابق سیلاب اور زلزلے سے پورے ضلعے میں تباہی ہوئی تھی اور چترال میں 18,400 لوگوں میں دو ارب 19 کروڑ روپےکے چیک تقسیم گئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق بجلی کی بحالی کے کام میں وقت لگے گا لیکن عوام کا کام یہ نہیں کہ وہ حکومت کو پوست کاشت کرنے کی دھمکیاں دیں۔
خیال رہے کہ پاکستان گزشتہ پانچ برسوں سے پوست کی کاشت سے پاک ملک ہے۔
گذشتہ برس ملک سے پوست کی کاشت کے مکمل خاتمے کے لیے قانون میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں پوست کاشت کرنے والوں کی محض فصلیں ہی تباہ نہیں کی جائیں گی بلکہ انھیں گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔
Post a Comment