How Samosa reached to subcontinent – a unique history – read full >>

سموسے کی برصغیر پہنچنے کی انوکھی کہانی
آپ سموسے کو بھلے ہی ’سٹریٹ فوڈ‘ (سڑک کے کنارے ملنے والا کھانا) سمجھیں لیکن یہ صرف ایک سٹریٹ فوڈ ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کی تاریخی اہمیت ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمگیریت کا عمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔
آج کے دور میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سموسہ ایک انڈین نمکین ڈش ہے لیکن اس سے وابستہ تاریخ کچھ اور ہی داستان بتاتی ہے۔
سموسے کا تعلق بنیادی طور سے ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ کچھ بھی ہو، بر صغیر کے لوگ اسے کھانا ترک نہیں کریں گے!
سموسے کا پہلی بار ذکر 11 ویں صدی کے فارسی مورخ ابو الفضل بیہقی کی تحریروں میں ملتا ہے
یہ تو نہیں معلوم کہ پہلی بار اسے تكونا کب بنایا گیا لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس کا نام سموسہ فارسی زبان کے ’سنبوساگ‘ سے ماخوذ ہے۔
سموسے کا پہلی بار ذکر 11 ویں صدی کے فارسی مورخ ابو الفضل بیہقی کی تحریروں میں ملتا ہے۔
انھوں نے غزنوي سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا ہوتا تھا۔
اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔ لیکن مسلسل بر صغیر آنے والے تارکین وطن نے سموسے کی طرز اور رنگ کو بدل کر رکھ دیا۔
سموسہ بر صغیر اسی راستے پہنچا جس راستے سے دو ہزار برس پہلے آریائي نسل کے لوگ بھارت پہنچے تھے
سموسہ بر صغیر اسی راستے پہنچا جس راستے سے دو ہزار برس پہلے آریائي نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ سموسہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے پہنچا جس علاقے کو آج افغانستان کہتے ہیں۔
باہر سے آنے والے ان تارکین وطن نے ہندوستان میں کافی کچھ تبدیل کیا اور ساتھ ہی ساتھ سموسے کی شکل میں بھی کافی تبدیلی آئی۔
وقت کے ساتھ جیسے ہی سموسہ تاجکستان اور ازبکستان پہنچا اس میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ اور جیسا کہ انڈیا میں کھانوں کے ماہر پرفیسر پوشپیش پنت بتاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کسانوں کی ڈش بن گیا۔
صدیوں کے بعد سموسے نے ہندو کش کے برفانی دررو کو عبور کرتے ہوتے ہوئے برصغیر تک کا سفر طے کیا۔
صدیوں کے بعد سموسے نے ہندو کش کے برفانی دررو کو عبور کرتے ہوتے ہوئے برصغیر تک کا سفر طے کیا
سموسے کے سفر میں جو کچھ ہوا وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ پروفیسر پنت سموسے کو ’سم دھرمي ڈش‘ یعنی تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ سموسہ آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح سے یہ ڈش ہم تک پہنچی ہیں اور کس طرح انڈیا نے انھیں اپنی ضرورت کے حساب سے پورے طور پر تبدیل کر کے اپنا بنا لیا ہے۔‘
بھارت میں سموسے کو یہاں کے ذائقے کے حساب سے اپنائے جانے کے بعد یہ دنیا کا پہلا ’فاسٹ فوڈ‘ بن گیا۔ اس میں بھری جانی والی چیزیں بدل گئیں اور گوشت کی جگہ سبزیوں نے لے لی ہے۔
اب بھارت میں آلو کے ساتھ مرچ اور مزیدار مصالحے بھر کر سموسے بنائے جاتے ہیں۔ سولہویں صدی میں پرتگالیوں کی طرف سے آلو لائے جانے کے بعد سے سموسے میں اس کا استعمال شروع ہوا۔
اس کے بعد سے سموسے میں اب تک تبدیلیاں جاری ہیں۔ انڈیا میں آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے یہ آپ کو مختلف ہی شکل میں وہاں موجود ملےگا۔
اب بھارت میں آلو کے ساتھ مرچ اور مزیدار مصالحے بھر کر سموسے بنائے جاتے ہیں۔ سولہویں صدی میں پرتگالیوں کی طرف سے آلو لائے جانے کے بعد سے سموسے میں اس کا استعمال شروع ہوا
مختلف علاقوں میں الگ الگ طرح کے سموسے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ہی بازار میں مختلف دکانوں پر ملنے والے سموسوں کے ذائقہ میں کافی فرق ہوتا ہے۔
سموسہ کبھی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ پورا کھانا ایک سموسے میں ہی نمٹ جائے گا۔
افریقی سیاح ابن بطوطہ نے محمد بن تغلق کے دربار میں ہونے والی عظیم الشان ضیافت میں فراہم کیےگئے سموسے کا ذکر کیا ہے۔
انھوں نے سموسے کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قیمہ اور مٹر بھرا ہوا پتلی پرت والا پیسٹری تھا۔

سموسے کا سفر صرف ہندوستان میں ہی ختم نہیں ہوتا۔ برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں اور ہندوستانی تارکین وطن پچھلی چند صدیوں میں دنیا میں جہاں کہیں بھی گئے اپنے ساتھ سموسہ لے کر گئے ہیں۔
اس طرح سے ایرانی بادشاہوں کے اس شاہی پکوان کا آج تمام ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔



Post a Comment

Previous Post Next Post