غزل
آج پھر یہ کمال کرنا پڑا
ہنس پڑی جب ملال کرنا پڑا
مسکرا کر جو ٹال دیتا ہے
اس کے آگے سوال کرنا پڑا
حبس برھنے لگا تو عجلت میں
رابطوں کو بحال کرنا پڑا
پتھروں کو زباں نہیں بخشی
دوستوں کا خیال کرنا پڑا
تیری آہٹ سے تال میل گیا
دھڑکنوں کو دھمال کرنا پڑا
تجھ پہ لکھی ہے بے مثال غزل
یوں تجھے بے مثال کرنا کرنا پڑا
رضوانہ سیعد روز
Post a Comment