عشق تسلیم و رضا کے ماسوا کچھ بھی نہیں
وہ وفا سے خوش نہ ہوں تو پھر وفا کچھ بھی نہیں
مدتوں ان کی طلب میں خاک چھانی تو کھلا
ایک پردہ بیچ میں ہے، فاصلہ کچھ بھی نہیں
زندگی کا ماحصل ہیں الٹے سیدھے کچھ نقوش
کس قدر خاکے بنائے اور بنا کچھ بھی نہیں
زندگی کی داستاں ہے ایک دیوانے کا خواب
مدتوں سے کہہ رہا ہوں اور کہا کچھ بھی نہیں
روبرو بھی وہ نہیں ہیں، پھر بھی ہیں رازو نیاز
گفتگو ہے اور آواز و صدا کچھ بھی نہیں
سامنا ان کا ہوا تو سب حقیقت کھل گئی
ہم سمجھتے تھے کہ دل کا تھامنا کچھ بھی نہیں
زندگی کو ہم نے بخشا شیوۂ سوز و گداز
زندگی سے ہم نے لیکن کیا لیا؟ کچھ بھی نہیں
عشق پہلے جذب و مستی، پھر سکوت_بیکراں
ابتدا سب کچھ ہے لیکن انتہا کچھ بھی نہیں
ان سے مس ہوکر جو آئے وہ جہان_رنگ و بو
ان کے کوچے سے نہ گزرے تو صبا کچھ بھی نہیں
Post a Comment