قلیل ہو کہ زیادہ ' مگر مَحبّت ہو
کسی طرح بھی محبّت ہو ' پر' محبّت ہو
تمام عمر بھلا کون زندہ رہتا ہے
سوائےاُس کے' جسے عمر بھر محبّت ہو
مجھے تو چین نہ پڑتا تھا ' جب محبّت تھی
یہ شخص بیٹھ نہ پائے ' اگر محبّت ہو
قباے نم ! یہی حق ہے برستی بارش کا
خراب کرتی شرابور تر محبّت ہو
تو جانتا نہیں ' کتنی دراز ہوتی ہے
اگر یہ زندگیء مختصر محبّت ہو
ہر ایک جھیل پہ مرغابیاں نہیں آتیں
محبتّوں کے لیے' سربسر محبّت ہو
جو ایک بار کے قائل ہیں' ان سے پوچھیے گا
وہ کیا کرے ' جسے بار ِدگر محبّت ہو
تَو ایک شخص مجھے بھول جانا چاہیے نا !
سعُودؔ ! مجھ کو اگر راس ہر محبّت ہو
(سعودؔ عثمانی)
Post a Comment