کچھ میٹھے لمحے مانگے تھے
کچھ سرد ہوائیں مانگی تھیں
ہم نے تو زمانے والوں سے
دو چار وفائیں مانگی تھیں
برسات کے ہر ایک بادل نے
جی بھر کے ہم کو ترسایا
ہم بھیگ سکیں یہ چاھا تھا
اور کالی گھٹائیں مانگی تھیں
ناکام ھوۓ جو الفت میں
مجبور ھوۓ جو ملنے سے
کچھ ان کے لیے کچھ اپنے لیے
ہم نے بھی دعائیں مانگی تھیں
Post a Comment